اسلام آباد (این این آئی)چیف جسٹس پاکستان مسٹر جسٹس ثاقب نثار نے جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کی سماعت کے دوران کہا ہے کہ اومنی گروپ کی دھمکیوں کی آڈیو ریکارڈنگ موجود ہے اس لیے مجید فیملی سے جیل میں موبائل فون اس لیے چھینے گئے ہیں۔ بدھ کو سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں بینچ نے مبینہ جعلی بینک اکاونٹس کیس کی سماعت کی ۔سماعت کے
آغاز پر اومنی گروپ کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ بینکوں اور اومنی گروپ کو قرضوں کی ادائیگی پر سیٹلمنٹ معاہدے پیش کرنے ہیں ۔ بینک کے وکیل نعیم بخاری نے کہا کہ چینی کے 25 لاکھ تھیلے غائب ہونا مجرمانہ فعل ہے۔چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ یہ فراڈ ہوا ہے تو سول اور فوجداری فورم سے رجوع کریں، لگتا ہے بینک گارنٹی کے لیے ساری کارروائی کاغذی تھی، بینک کے جو لوگ ملوث ہیں ان کے خلاف بھی پرچہ درج کرائیں، قرضہ اور گارنٹی معاملے میں جو ملوث ہیں ان کے خلاف کارروائی ہوگی۔چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ معاملے کی تحقیقات ایف آئی اے کرے گی اور عدالت کا یہی حکم ہے۔اومنی گروپ کے وکیل شاہد حامد نے کہا کہ گروپ کسی کا نادہندہ نہیں ہے، اس کی شوگر ملیں بند ہونے سے کسان پریشان ہیں۔اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ شوگر ملز کو عدالت ٹیک اوور کرے گی ٗکسان کا نقصان نہیں ہونے دیں گے۔عدالت نے کہا کہ اومنی گروپ نے بینک کو رکھی گارنٹی میں بھی بدنیتی کی، گروپ کے خلاف فوجداری کارروائی کا بینک خواہش مند ہے۔چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ پرچہ درج ہو جس وقت سمجھوتہ ہونا ہوگا ہو جائے گا، اومنی گروپ صرف وقت حاصل کرنا چاہتا ہے، سمجھوتہ کرنا ہے تو 5 ارب روپے بینک کو ادا کر دیں۔اس موقع پر اومنی گروپ کے وکیل نے استدعا کی کہ عدالت تھوڑا وقت دے دے، مجھے موکل
سے ہدایات لینا ہیں، عبدالغنی مجید سے اڈیالہ جیل میں ملاقات کرنی ہے۔عدالت نے عبد الغنی مجید اور حسین لوائی کے وکلاء کو ملاقات کی اجازت دیتے ہوئے کہا کہ اومنی گروپ کے وکلاء اپنے موکلان سے اڈیالہ جیل میں ملاقات کرنا چاہتے ہیں، موکلان ملاقات کرکے عدالت کو آگاہ کریں۔اومنی گروپ کے وکیل نے عدالت سے کیس (آج) جمعرات تک ملتوی کرنے کی درخواست کی جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ رات تک بیٹھے ہیں، کینٹین کھلی ہے وہاں جائیں چائے پئیں، آپ نے مقدمے میں کتنی فیس لی، اگر بتا دوں تو لوگ حیران ہوجائیں گے۔چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ اومنی گروپ کی دھمکیوں کی آڈیو ریکارڈنگ موجود ہے، مجید فیملی سے جیل میں موبائل فون اس لیے چھینے گئے ہیں۔