ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

حکمران جماعت پی ٹی آئی کے اہم اراکین اسرائیل کو تسلیم کروانے کیلئے سرگرم ،بھیانک مہم کے پیچھے کون کون ہے؟ معروف صحافی مظہر برلاس نے دھماکہ خیز انکشاف کر دیا

datetime 13  ‬‮نومبر‬‮  2018
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)اسرائیلی طیارے کی پاکستان آمد کی دھماکہ خیز افواہ نے نہ صرف پاکستان کے سیاسی ماحول کو گرما کر رکھ دیا تھا بلکہ قومی اسمبلی میں اس پر اپوزیشن نے باقاعدہ تحقیقات کا مطالبہ کر دیا تھا۔ بالآخر اسرائیلی طیارے کے معاملے کی جگہ آسیہ مسیح کی سپریم کورٹ سے رہائی کے فیصلے نے لے لی اور پورا ملک آسیہ مسیح کے معاملے پر جلا، گھیرا اور ٹوٹا ،

عوام اسرائیلی طیارے کو بھول گئے، آسیہ مسیح کے معاملے پر اپوزیشن بھی تقسیم نظر آئی، اپوزیشن میں شامل مذہبی جماعتیں آسیہ مسیح کی پھانسی کی حامی اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظر آئیں جبکہ پیپلزپارٹی نے عمران خان قدم بڑھائو ہم تمہارے ساتھ ہے کا نعرہ لگا دیا، ن لیگ ملک میں اس فیصلے کے بعد پیدا ہونیوالی صورتحال پر حکومت پر طعنے و تشنیع کے نشتر چلاتی نظر آئی ۔ تاہم اب دوبارہ سے اسرائیلی طیارے اور اسرائیل کو تسلیم کئے جانے کے حوالے سے معروف صحافی مظہر برلاس نے سنسنی خیز انکشاف کیا ہے۔ وہ اپنے کالم میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ وزیر اطلاعات فواد چوہدری کو کہنا پڑ رہا ہے کہ ’’پاکستان میں سیاسی نہیںفکری بحران ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پیدا ہونے والا بحران معاشرے کا بحران ہے۔ لوگ مذہب کا لبادہ اوڑھ کر بحران پیدا کر رہے ہیں۔ یہ لوگ ہر ہفتے ایک نیا مسئلہ نکال کر سیاست چمکاتے ہیں۔ یہ نظریات کی لڑائی ہے۔ یہ بندوق سے نہیں دلیل سے لڑی جاتی ہے۔ سپریم کورٹ کافیصلہ کسی نے پڑھا ہی نہیں۔ ریاست کی ناکامی یہ ہوئی کہ بندوق والوں کی دلیل کے سامنے دوسروں کو بچا نہ سکی۔‘‘ سیاسی معاملات پربات کرتے ہوئے چوہدری فواد حسین نے کہا ہے کہ ’’ڈی جی نیب نے جیسے ہی شہبازشریف کوگرفتار کیا، ان کی ڈگری پرسوالات اٹھا دیئے گئے۔ ان کی ڈگری جعلی تھی تو سابق حکومت نے

کارروائی کیوں نہیں کی؟ تحریک انصاف کا فیصلہ ہے کہ نواز شریف کے فیصلوں پر چیک کے لئے شہباز شریف کو پی اے سی کا چیئرمین نہیں بنانا، اگر اپوزیشن ہی سے بنانا ہے تو پھر بلاول بھٹوزرداری کو بنا دیں۔ خورشید شاہ کس کس کے ساتھ ہیں یہ توپیپلزپارٹی والوں کو بھی نہیں پتا‘‘اگر ہم وزیر اطلاعات کی باتوںکو دو حصوں میں تقسیم کرلیں تو پہلا حصہ معاشرے کے فکری رجحانات سے

متعلق ہے اور دوسرا حصہ سیاسی بے رحمی پر مشتمل ہے۔ پہلے معاشرے کی بات کرلیتے ہیں۔ یہ معاشرہ بہت عمدہ تھا، قریباً چالیس برس پہلے اس میں عدم برداشت کا زہرگھولا گیا۔ آج یہ معاشرہ زہر آلود ہو چکاہے۔ آپ اتفاق کریں یا نہ کریں اس آلودگی میں اضافہ سیاسی قیادتوں نے کیا۔ انہوں نے لوگوں کے مسائل حل نہیں کئے۔ ہر جماعت بے شمار سیاسی وعدوں کے ساتھ اقتدار میں آئی

اور اقتدار میں آ کر تمام وعدے بھول گئی۔ اگلے الیکشن میں لوگ دوسری جماعت کے ہتھے چڑھ گئے۔ اس طرح جماعتیں باریاں لیتی رہیں اور معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوتارہا۔ پچھلے تیس پینتیس برسوں کی سیاسی کمائی یہ ہے کہ اس نے معاشرے میں غربت، افلاس، جہالت اور بیروزگاری تقسیم کی۔ آج کے بگاڑ کی وجہ غربت ہے۔ دولت کی ہوس میں تمام حدیں پار کرنا لوگوںکا شیوہ بن گیا ہے۔

کیالوگوں کو یاد نہیں کہ پچھلے پانچ دس سالوں میں کچھ عیسائی بستیاں جلائی گئیں، اس وقت حکومتیں کیا کر رہی تھیں؟ جس فکری بحران کی بات فواد چوہدری کررہے ہیں، دراصل وہ سیاستدانوں ہی کا پیدا کردہ ہے۔ پچھلے چالیس سال میں فکر اقبال کو گم کیا گیاحالانکہ اقبال نے ملّا ازم سے زیادہ اہم صوفی ازم کوقرار دیا۔ بڑی بدقسمتی ہے کہ ہم صوفیا کا دیا ہوادرس بھول گئے۔ صوفیا تو امن کی بات کرتے تھے،

برداشت کی بات کرتے تھے، حسن سلوک کی بات کرتے تھے۔ صوفیا نے کبھی بھی معاشرے میںنفرتوں کو تقسیم نہیں کیا تھابلکہ ہمیشہ محبتوںکو بانٹا۔ آج بھی وقت ہے ہم صوفی ازم کی طرف چلے جائیں تاکہ عدم برداشت ختم ہو تاکہ قائداعظم اور علامہ اقبال کی فکر پیداہوسکے۔ لوگوں کو سوچنا چاہئے کہ دو بڑے مذاہب کے مقدس مقامات پاکستان میں ہیں۔ ان دو مذاہب میں سکھ مذہب اور بدھ مت شامل ہیں۔

آپ کو یاد ہونا چاہئے کہ حالیہ مظاہروں کے باعث کچھ سکھ یاتریوں کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، اس لئے کہ ٹریفک بند تھی۔ ہمیں فواد چوہدری کی باتوں سے بہت حد تک اتفاق ہے مگر انہیں چاہئے کہ وہ اپنی جماعت کی طرف بھی دیکھیں۔ ان کی جماعت کے کچھ اراکین ہمیں اسرائیل کو تسلیم کرنے کا بھاشن دے رہی ہیں۔ یہ نیا بحران کون لوگ پیدا کر رہے ہیں۔ کیا یہ نیا بحران پی ٹی آئی کی

ایک رکن اسمبلی پیدا نہیں کررہیں۔ ایک طے شدہ معاملے کو چھیڑنے کی کیا ضرورت ہے؟ پھر ان کی کم علمی بھی ان کی تقریر سے جھلک رہی ہے۔ مجھے اس سلسلے میں اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن علامہ افتخار حسین نقوی نے قرآن و حدیث کی روشنی میں بہت کچھ بتایا ہے۔ سو، مہربانی کرکے فواد چوہدری صاحب اپنی پارٹی کے اراکین کو منع کریں کہ وہ ہمیں اسرائیل سے دوستی کادرس نہ دیں۔

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…