اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)عجب کرپشن کی غضب کہانی ،ملتان میٹرو بس میں کرپشن کا پیسہ منی لانڈرنگ کے ذریعے چین کیسے منتقل ہوا، کیپیٹل انجینئرنگ کمپنی کاسی ای اوفیصل سبحان راولپنڈی کے راجہ بازار کی قصائی گلی میں کراکری کی دکان کا سیلز مین ، ہورائزن انٹرنیشنل کمپنی کا مالک اسلم خان ایک مہرساز نکلا، روزنامہ جنگ کی رپورٹ میں سنسنی خیز انکشافات ۔
تفسیلات کے مطابق ملتان میٹرو بس میں کرپشن کے حوالے سے خبریں میڈیا کی زینت بنتی رہی ہیں تاہم اب روزنامہ جنگ کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ منصوبے میں کی گئی کرپشن کی رقم کو چین منتقل کیا گیا ہے اور اس حوالے سے جعلی کمپنی سامنے لائی گئیں اور ایف آئی اے نے یہ تمام کیس حل کر لیاتھا اور وہ پوری کہانی کے مرکزی کردار تک پہنچ چکی تھی کہ اچانک کیس پراسرار طریقے سے نیب کے حوالے کر دیا گیا اور اس معاملے میں تمام پیش رفت کہ منی لانڈرنگ کی پشت پر کس کا ہاتھ ہے روک دیا گیا ہے۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ایف آئی اے نے ملتان میٹرو بس کیس میں پاکستان سے چین جون 2016ء سے مارچ 2017ء کے دوران 28 لاکھ ڈالرز مالیت کی 49 مختلف منتقلیوں کا سراغ لگایا ہے۔ تاہم جب ایف آئی اے اس پوری کہانی کے مرکزی کردار تک پہنچی تو دسمبر 2017ء میں کیس اچانک پراسرار طریقے سے نیب کے حوالے کر دیا گیا۔ اس معاملے میں تمام پیش رفت کہ منی لانڈرنگ کی پشت پر کس کا ہاتھ، اسے روک دیا گیا۔ تاہم منی لانڈرنگ میں ملوث خفیہ ہاتھ فاش ہوگئے۔ ایف آئی اے کے اعلیٰ حکام نے دریافت کرنے پر بتایا کہ نیب کو کسی بھی کیس پر مکمل اختیار ہے اور وہ ایف آئی اے کو مزید تحقیقات سے روک سکتا ہے۔ ملتان میٹرو بس اسکینڈل کیا ہے؟ چائنا سیکورٹیز اینڈ ریگولیٹری کمیشن (سی ایس آر سی)
نے چینی کمپنی ’’یابیٹ‘‘ میں 16 آف شور کمپنیوں کے بینک اکائونٹس سے 3 کروڑ 50 لاکھ ڈالرز کی غیرمعمولی منتقلیوں کا سراغ لگایا۔ اس چینی کمپنی نے سی ایس آر سی کو بتایا کہ مذکورہ رقوم میں سے ایک کروڑ 77 لاکھ 80 ہزار ڈالرز پاکستان سے منتقل ہوئے۔ جو ملتان میٹروبس پروجیکٹ کے حوالے سے تھے۔ اپنے دعوے کو حق بجانب ثابت کرنے کے لئے اس چینی کمپنی نے
سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف، سینیٹر مشاہد حسین سیّد اور سینیٹر کلثوم پروین کے سرکاری خطوط پیش کئے۔ یابیٹ نے پاکستانی شراکت دار کمپنی کیپٹل انجینئرنگ کے سی ای او فیصل سبحان کا سی ایس آر سی کو بیان بھی جمع کرایا جس کے مطابق کیپٹل انجینئرنگ مبینہ طور پر شہباز شریف ہی کی ملکیت اور فیصل سبحان ان کے فرنٹ مین ہیں۔ بعدازاں ایس ای سی پی کی تحقیقات سے ثابت ہوا کہ
مذکورہ خطوط جعلی ہیں۔ ایف آئی اے نے پاکستان سے براستہ دبئی چین کو 28 لاکھ ڈالرز کی منتقلی کیسے پکڑی؟ مشکوک منتقلیاں پکڑنے کے بعد سی ایس آر سی نے مزید تحقیقات کے لئے پاکستانی ریگولیٹر ایس ای سی پی سے رابطہ کیا جس نے معاملہ ایف آئی اے کے حوالے کیا۔ گزشتہ سال ایف آئی اے کی تحقیقات کے مطابق کراچی کی دو کمپنیوں کو 28 لاکھ ڈالرز منتقل ہوئے۔
اس کیس میں ملوث کرداروں کے بارے میں ان کے کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈز کی بنیاد پر جب تحقیقات کی گئی تو معلوم ہوا کہ کیپٹل انجینئرنگ کا سی ای او فیصل سبحان ایک غریب آدمی اور راولپنڈی کے راجا بازار کی قصائی گلی میں کراکری دُکان پر سیلز مین ہے۔ یہ سب کچھ ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت کیا گیا۔ لیکن یہ حکمت عملی ناکام رہی۔ بعدازاں ان جعلی کمپنیوں کے
تمام کردار افشاء ہوگئے۔ اس تحقیقات سے اصل طاقتور کرداروں پر ہاتھ ڈالنے میں آسانی ہوگی جو انتہائی اثر و رسوخ کے مالک ہیں۔ معاملات کی تفصیلی تحقیقات سےثابت ہوتا ہے کہ پاکستان سے چین 28 لاکھ ڈالرز منتقلیوں میں مشکوک شخص ملوث ہے۔ متعلقہ دستاویزات میں ایک شخص محمد اسلم خان کو ہورائزن انٹرنیشنل کمپنی کا مالک دکھایا گیا ہے۔ بعدازاں خود اس نے اعتراف کیا
کہ وہ ایک ’’مہرساز‘‘ ہے۔ جب ایف آئی اے نے اس سے رابطہ کیا وہ تمام افراد جو رقوم کی منتقلی کے حوالے سے رابطوں میں تھے، وہ اچانک غائب ہوگئے۔ محمد اسلم خان سے کوئی رابطہ نہیں ہو سکا کیونکہ کمپنی پروفائل میں اس کے بارے میں معلومات جعلی نکلیں۔ ایس ای سی پی کے ریکارڈ کے مطابق محمد اسلم خان کا نام، فون نمبر اور پتہ کمپنی کے ڈائریکٹرز کی فہرست میں شامل نہیں ہے۔
محمد اسلم خان نے نیشنل بینک کسٹمز ہائوس برانچ کراچی میں 31 مئی 2016ء کو اکائونٹ کھولا جو جون 2016ء سے مارچ 2017ء تک فعال رہا ۔ جس میں صرف ایک اکائونٹ سے دو کروڑ 38 لاکھ 90 ہزار روپے کی منتقلی دکھائی گئی۔ جنگ سے گفتگو میں اسلم خان نے یہ باتیں دُہرائی جو اس نے ایف آئی اے کو بیان کی تھیں۔ اس کا دعویٰ تھا کہ وہ چین سے براستہ دبئی پاکستان کپڑا
درآمد کرتا ہے۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ جب وہ اتنا بڑا کاروباری ہے تو مہرسازی کا کام کیوں کرتا ہے، اس انکشاف کے بعد اس کے لئے سچ قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا کہ ایک شخص حارث نے اسے لالچ دیا تھا۔ جس نے اس کی ایک نعمان صاحب سے ملاقات کرائی۔ انہوں نے اسلم کو دو بار 50 ہزار 50 روپے ادا کئے۔ اس نے بتایا کہ وہ کبھی بینک گیا اور نہ ہی اسے معلوم کہ
وہاں کھاتہ کیسے کھولا گیا۔ وہ اس بات سے بھی لاعلم ہے کہ دو درجن سے زائد سمز اس کے سی این آئی سی پر کیسے خریدی گئیں۔ اسلم نے ایک دن اس نمائندے سے رابطہ کر کے بتایا کہ وہ اسے یہ بتانا بھول گیا تھا کہ جنوری 2017ء میں حارث اسے لاہور لے گیا۔ پنجاب سیکرٹریٹ کے قریب بینک کی شاخ میں اکائونٹ کھلوانے کے لئے اسے لے جایا گیا لیکن کچھ مسائل کی وجہ سے اکائونٹ کھل نہ سکا۔
رابطہ کرنے پر نیب ملتان کے میٹرو بس کیس کے انکوائری افسر ڈپٹی ڈائریکٹر محمد شاہد نے تفصیلات بتانے سے انکار کیا۔ ایف آئی اے اور نیب میں اندرونی ذرائع کے خیال میں اسلم خان کی پشت پر پراسرار لوگ اس قدر بارسوخ اور طاقتور ہیں کہ ہائی پروفائل گرفتاریاں اور سیاسی اقدامات اسی لئے ہو رہے ہیں کہ پشت پر اصل لوگوں کی شناخت پوشیدہ رکھی اور دانستہ توجہ ان سے موڑی جائے۔ تازہ ترین تحقیقات میں پیش رفت معلوم کرنے کے لئے رابطہ کرنے پر نیب ترجمان نے اپنے تحریری جواب میں بتایا کہ ملتان میٹرو بس اسکینڈل کا معاملہ زیرتفتیش اور جانچ پڑتال جاری ہے۔ اس مرحلے پر تفصیلات نہیں بتائی جا سکتیں اور کہا کہ میڈیا اس حوالے سے قیاس آرائیوں سے گریز کرے۔