اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)ملک کے معروف صحافی ہارون الرشید اپنے گزشتہ کالم میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ عمران خان کی بری بہن علیمہ خان کا چرچا تھا۔ خیال تھا کہ افواہ ہو گی، جیسے خواجہ آصف ، شوکت خانم ہسپتال کے بارے میں پھیلاتے رہے، انکشاف ہوا کہ دبئی میں واقعی جائیداد رکھتی ہیں۔ حفیظ اللہ خان سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا : امریکہ سے تعلق رکھنے والی
ایک بڑی کمپنی کی نمائندہ رہیں، پاکستانی ٹیکسٹائل کی جو بہت بڑی خریدار ہے۔ ان کا اندازہ ہے کہ کروڑوں ڈالر سالانہ کی خریداری پر تین سے پانچ فیصد کمیشن پاتی رہیں۔ علیمہ بہن سے بات نہ ہو سکی۔ شاید اس لئے کہ طوفان بدتمیزی میں خاموشی کو زیباسمجھتی ہیں۔ ان کے ایک رفیق کار نے پیغام بھیجا: سالہا سال ان کے ساتھ کام کیاہے۔ بہت ریاضت کیش اور بہت سلیمہ مند خاتون ہیں۔ پاکستانی ٹیکسٹائل کا سب سے بڑا خریدار امریکہ ہے۔ لگ بھگ دس بلین ڈالر سالانہ۔ امریکی کمپنی American merchandise int سے ایک زمانے میں وابستگی تھی۔ ایک ذریعے کا کہنا ہے کہ بتدریج ایک سو کاروباری ادارے، اس کمپنی سے استفادہ کرنے لگے۔ ممتاز ترین وکلا کا کہنا یہ ہے کہ سمندر پار کمائی گئی دولت، بیرون ملک رکھی جا سکتی ہے۔ رہے اعدادوشمار تو 60ارب روپے کا دعویٰ تو مضحکہ خیز ہے۔ ایک قار نے لکھا : میرے ماموں سعودی عرب میں ٹیکسی چلایا کرتے، اب ایک فیکٹری کے مالک ہیں۔ اس ناچیز کے دو رشتہ دار، درمیانے طبقے سے اٹھے اور اب کھرب پتی ہیں۔ ناچیز نے سوشل میڈیا پہ اپنی معلومات منتقل کیں تو گالی گلوچ کا ایک طوفان برپا ہوا۔ ’’علیمہ خان کے تم کیا لگتے ہو؟‘‘لفافہ حلال کرتے ہو؟دوست کی بہن حتیٰ کہ روٹھے ہوئے دوست کی بہن سے آدمی کا رشتہ کیا ہوتا ہے؟دو عشروں سے لاکھوں روپے سالانہ ٹیکس دیتا ہوں۔ تنخواہ سے خود بخود کٹ جاتا ہے۔ اس کے باوجود ایک دن وکیل سے مشورہ کیا تو اس نے کہا: بچت سے خریدی جائیداد پر جرمانہ ادا کرنا ہو گا۔ جرم یہ ہے کہ ٹیکس نمبر حاصل نہ کیا۔ ایمنسٹی سکیم آئی تو 17لاکھ ادا کئے۔ علیمہ خان کو شاید یہی کرنا چاہئے تھا۔ ان کے بھائی سیاستدان ہیں اور ساری دنیا کے محتسب ۔