کراچی (نیوز ڈیسک) ڈبوں میں ناقص دودھ کی فروخت سے متعلق کیس کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے دریافت کیا کہ کیا ڈبوں پر لکھا جا رہا ہے کہ یہ دودھ ہے یا نہیں؟ عدالتی معاون نے بتایا کہ رپورٹس کے مطابق کچھ ڈبوں پر لکھا جا رہا ہے یہ دودھ نہیں۔ ایک کمپنی والے مجھ سے سفارش کروا رہے ہیں۔ اس کمپنی کی بنیادی سروس ہی دودھ ہے، ٹی وائٹنر کے زمرے میں نہیں آتا۔
کمپنی والے کہاں ہیں یہ بتائیں سفارش کیوں کروائی۔ہفتہ کو سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں ڈبوں میں ناقص دودھ کی فروخت سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے دریافت کیا کہ کیا ڈبوں پر لکھا جا رہا ہے کہ یہ دودھ ہے یا نہیں؟ عدالتی معاون نے بتایا کہ کچھ رپورٹس آئی ہیں کہ ڈبوں پر لکھا جا رہا ہے یہ دودھ نہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ ایک کمپنی والے مجھ سے سفارش کروا رہے ہیں۔ اس کمپنی کی بنیادی سروس ہی دودھ ہے، ٹی وائٹنر کے زمرے میں نہیں آتا۔چیف جسٹس نے کہا کہ کمپنی والے کہاں ہیں یہ بتائیں سفارش کیوں کروائی۔ نجی دودھ کمپنی کا مالک عدالت میں پیش ہوگیا۔چیف جسٹس نے کہا عدالت میں معافی مانگیں، آپ رشتے میں میرے بہنوئی ہیں مگر سفارش کیوں کروائی۔ سفارش کروانے کی بیماری پڑ چکی ہے۔چیف جسٹس کے حکم پر نجی کمپنی کے مالک نے معافی مانگ لی۔انہوں نے کہا کہ آپ کا کیس میرٹ پر ہی حل کریں گے۔ عدالت نے نجی کمپنی سے متعلق بنیادی سورس دودھ ہی ہونے پر نمٹا دیا۔خیال رہے اس سے قبل چیف جسٹس نے ڈبے کے دودھ پر نوٹس لیتے ہوئے کراچی میں دستیاب دودھ لیبارٹریز سے ٹیسٹ کروانے کا حکم دیا تھا۔چیف جسٹس نے صوبہ پنجاب میں بکنے والے ڈبوں کے دودھ کی بھی جانچ کروائی تھی جس کے بعد ان کا کہنا تھا کہ پنجاب میں پیکٹ کے دودھ سے اب یوریا، بال صفا پاڈر اور غیر معیاری اشیا کا خاتمہ ہوگیا ہے۔