لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) نامور تجزیہ کار ہارون الرشید نے نجی نیوز چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب تک نواز شریف’ آصف علی زرداری اور اپنے ‘‘قائداعظم’’ عمران خان کو یہودیوں کا ایجنٹ قرار دینے والے مولانا کا سختی سے احتساب نہ ہو۔
دونوں پارٹیوں کی کشمکش تو پہلے سے تھی مگر 2013 کے انتخابی نتائج نے مولانا فضل الرحمن کو مشتعل کر دیا۔ ذہنی طور پر صوبائی حکومت بنانے کیلئے وہ بالکل تیار تھے ۔ بالکل غیر متوقع طور پر عمران خان نے موصوف کی بساط لپیٹ دی۔ یہی نہیں’ وقتی طور پہ مولانا ہی کے مکتب فکر سے تعلق رکھنے والی جماعت اسلامی بھی مدتوں سے وسطی پنجاب میں تقسیم پشتون خاندان کے فرزند سے جا ملی۔ باقی تاریخ ہے ۔ کیا مولانا فضل الرحمن ایک مضبوط اپوزیشن اتحاد قائم کرنے میں کامیاب رہیں گے ۔ سیاسی عوامل کچھ زیادہ ان کے حق میں نہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ عمران خان کی ہم آہنگی مثالی ہے ۔ اس قدر کہ پنجابی محاورے کے مطابق ایک کو بخار چڑھے تو دردناک آواز دوسرے کی سنائی دیتی ہے ۔ عوام میں مولانا فضل الرحمن سے بہرحال وہ دس گنا مقبول ہیں۔ چین اور عربوں سے معاملات بہتر بنانے کے بعد’ عسکری انتظامیہ’ جس کی راہ پہلے ہی ہموار کر چکی تھی’ عمران خان کی راہ کے کانٹے کم ہو گئے ہیں۔ آئندہ چند ہفتوں میں باقی ماندہ بھی اگر چن لئے گئے تو پی ٹی آئی حکومت مضبوط ہو جائے گی۔ اپوزیشن کے مضبوط اتحاد کی تشکیل سہل نہیں۔ قرائن یہ کہتے ہیں کہ میاں محمد نواز شریف کی اسٹیبلشمنٹ سے کچھ نہ کچھ مفاہمت ہو چکی ہے ۔