اسلام آباد(نیوز ڈیسک)معروف کالم نگار پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی اپنے کالم میں ایک جگہ لکھتے ہیں حضرت عمر فاروق ؓ فرماتے ہیں مجھے امت میں سب سے زیا دہ خوف اُس عالم سے آتا ہے جو منافق ہو ‘ لوگوں نے پو چھا منافق عالم کون تو فرمانے لگے زبان سے عالم ہو دل اور عمل کے اعتبار سے جاہل ۔ حضرت حسن بصری ؒ فرماتے ہیں کہ تو ان لوگوں میںسے مت ہو جو علم اور ظرافت کو
علماء اور حکماء کی طرح رکھتے ہوں اور عمل بے وقوفوں کی طرح ۔ ایک شخص نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے پوچھا کہ میں علم حاصل کر نا چاہتا ہوں مگر ڈریہ ہے کہ کہیں اس کو ضائع نہ کر دوں تو آپ ؓ نے فرمایا کہ علم کو ضائع کرنے کے لیے تمہا را اسے چھوڑ بیٹھنا ہی کافی ہے ۔ ابراہیم ابن عقبہ ؓ سے کسی نے پو چھا لوگوں میںسب سے زیادہ ندامت کس شخص کو ہو تی ہے تو فرمایا دنیا میں سب سے زیادہ ندامت اس شخص کو ہو تی ہے جو احسان ناشناس پر احسان کر ے اور موت کے وقت اس عالم کو زیادہ ندا مت ہو تی ہے جس نے عمل میں کو تا ہی کی ہو ۔نبی رحمت ﷺ فرماتے ہیں عالم کو اس قدر عذاب دیا جائے گا کہ اس عذاب کی شدت سے اہل دوزخ اس کے اردگرد جمع ہو نگے ۔ حضرت اسامہ ابن زیدؓ سے نقل ہے ۔ قیامت کے دن عالم کو لایا جا ئے گا آگ میں ڈال دیا جا ئے گا اِس کی آنتیں نکل پڑیں گیں وہ ان کے لیے اِس طرح گھو مے گا جس طرح گدھا چکی کے گرد گھومتا ہے دوزخ والے اس کے ساتھ گھو میں گے اور کہیں گے تجھے ایسا درد ناک عذاب کیوں دیا جا رہا ہے وہ کہے گا میں بھلا ئی کا حکم دیتا تھا اور خود عمل نہ کر تا تھا ‘ برائی سے روکتا تھا اور خود برائی میں مبتلا تھا ۔ نبی دو جہاں ﷺ کا فرمان مبارک ہے جو شخص ان علوم میں سے کو ئی علم حاصل کر لے جن سے اللہ کی رضا مقصود ہو تی ہے اور اس کا ارادہ یہ ہو کہ دنیا کا مال مل جا ئے ایسا شخص قیامت
کے دن جنت کی خوشبو تک نہ سونگھ پائے گا ۔ اگر ہم آج کے علمائے دین پر نظر دوڑاتے ہیں تو چند ایک کے علاوہ جو واقعی علمائے حق کے حقیقی وارث ہیں باقی مادیت پر ستی خو د پر ستی چاہ پرستی میں غرق اپنے حقیقی کام کو فراموش کر بیٹھے ہیں ‘ اب ہم اصل واقعہ کی طرف آتے ہیں جس نے مجھے اُدھیڑ کر رکھ دیا میں کئی راتیں سو نہ سکا مجھے بار بار عقیدت و احترام کے پیکر
میاں بیوی یاد آتے ہیں جو معصوم انسان تھے اوراسلام ‘ہدایت اوراولیا کرام کی محبت میں مبتلا اپنا سب کچھ وارنے کو تیار تھے لیکن ان کے ساتھ جو بے رحم سلوک ہوا اُس نے میرے جیسے صلح جو انسان کے اندر بھی بارود بھر دیا ‘ میرا بھی دل کر تا ہے اُس بے رحم درندے جنسی جانور نما انسان سے جا کر پوچھوں کہ تم نے جو بہروپ اپنا رکھا ہے یہ خدا کی خو شنودی کی بجائے اپنی زانی ہوس
اور جنسی تسکین کے لیے تجھے خوف خدا کیوں نہیں آتا تم جانتے ہوجلد تم بھی قبر کی بے رحم تاریکی کے سپر د کر دئیے جا ئو گے جہاں پر قبر کا سنا ٹا ‘ زہریلے سانپ بچھو کیڑے مکو ڑے تمہاری لاش کوا دھیڑ کر رکھ دیں گے تمہاری ہڈیوں کا چورہ بن جائے گا تمہارا پیٹ اورکھو پڑی پھٹ جائے گی تم کیڑوں کی خو راک بنو گے جب شریف میاں بیوی نے مجھے اپنی داستان غم سنائی کہ
ان دونوں کا تعلق پنجا ب کے ایک بڑے شہر سے ہے بچپن سے ہم دونوں کے گھر والوں کا مذہبی رحجان بلکہ اہل تصوف سے حقیقی لگائو ادب و احترام کا تھا بیوی نے داستان جاری رکھتے ہو ئے کہا کہ شادی کے بعد ہم دونوں نیک عالم دین کی تلاش میں تھے جو تصوف سے بھی لگائو رکھتا ہو جلدی ہی ہمیں وہ بزرگ مل گئے جو سراپا محبت تھے مذہب ہی اُن کا اوڑھنا بچھو نا تھا اُن کی
ایمان افروز تقریروں کا ایک زمانہ دیوانہ تھا انہوں نے کئی مدرسے بھی بنا رکھے تھے جہاں پر ہزاروں طالب علم اپنی روحانی علمی پیاس بجھاتے تھے ہمیں لگا یہی ہما ری منزل ہیں ہم دونوں اُن کے ہاتھ پر بیعت ہونگے اب ہم نے گھر بھی اُن کے مدرسے کے قریب لیا کیونکہ ہم زیادہ سے زیادہ اُن کی صحبت سے فیض یاب ہو نا چاہتے تھے ‘ اپنی خدمت تابعداری سے ہم جلد ہی اُن کے قریبی حلقے میں شامل ہو گئے ۔
پیر صاحب عمر کی سیڑھیاں چڑھتے جارہے تھے اِس دوران اُن کی یکے بعد دیگرے دو بیویاں فوت ہو گئیں تو انہوں نے تیسری شادی کر لی جو اسلام کے عین مطابق تھی پھر کچھ عرصے بعد اُن کی تیسری بیوی بھی انتقال کر گئی ۔ اب بابا جی اکیلے ہو گئے ‘ عمر بھی نو ے کے قریب آگئی تھی ہمیں لگا خدا نے ہمیں با با جی کی قربت اور خدمت کا مو قع دیا ہے اِس لیے اب ہم نے اپنی بڑی بیٹی
جس کی عمر تیرہ سال تھی بابا جی کی خدمت پر معمور کر دی ‘ میں دن رات بابا جی کی پسند کا کھانا بناتی ‘ بیٹی کو کہتی جا کر دے کر آئو اور بابا جی کے کمرے کی صفائی اور با قی کام بھی کر کے آئو ہم اور بیٹی خوب دل و جان سے بابا جی کی خدمت کر رہے تھے کہ ایک دن بابا جی نے مجھے کہا مجھے آپ لوگوں سے بہت ہی خاص ذاتی ضروری کام ہے اِس لیے تم میاں بیوی کسی دن دونو ں
مجھ سے ملنے آئو ہم خو شی سے پھو لے نہیں سما رہے تھے کہ بابا جی کو ہم غریبوں سے کیا کام ہما ری تو قسمت جاگ گئی جو بابا جی کی خدمت کا موقع مل رہا تھا ہمیں رات کو خوشی سے نیند بھی نہیں آرہی تھی کہ صبح ہمیں بابا جی کی قربت اور خدمت کا ایک اور موقع ملنے والا ہے اگلے دن مقررہ وقت پر ہم دونوں میاں بیوی بابا جی کے مدرسے پہنچ گئے بابا جی نے میرے میاں سے کہا تم باہر بیٹھو ‘
میں نے تمہا ری بیوی سے خاص بات کر نی ہے میں اپنی قسمت پر نازاں بابا جی کے سامنے نظریں جھکائے بیٹھی تھی بابا جی نے بو لنا شروع کیا دیکھ تمہاری بڑی بیٹی چودہ سال کی ہو گئی ہے اُس نے میری بہت خدمت بھی کی ہے وہ مجھے اب اچھی بھی لگتی ہے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ تم اُس کی شادی میرے ساتھ کر دو مجھے پتہ ہے میں چند سال بعد مر جائو ںگا میرے مرنے کے بعد تم جہاں
مر ضی اُس کی شادی کر دینا اِس خد مت کے بدلے میں ہر ماہ تمہیں پچیس ہزار بھی دیا کروں گا ۔ بڑھاپا اب میرے لیے بہت تکلیف دہ ہو گیا ہے میرا دل بھی بہل جائے گا تمہا ری ما لی مدد بھی ہو جا ئے گی اور ہاں نکاح کے بعد میں تمہیں پانچ لاکھ بھی دوں گا جس سے تم اپنے گھر والوں کی ضرورتیں پوری کر لینا ۔ تم اور تمہارا میاں اکثر کہتا تھا کہ ہم ساری عمر آپ کی خدمت کر نا چاہتے ہیں اِس طرح تمہاری خدمت کی خواہش اور میرے بڑھاپے کا سہا را بھی ہو جائے گا ۔ پروفیسر صاحب میں پھٹی نظروں سے بابا جی کا چہرہ دیکھ رہی تھی جسے بلکل بھی خوف خدا نہیں تھا ۔