اسلام آباد( آن لائن ) وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا ہے کہ قائد حزب اختلاف شہباز شریف کی بدھ کے روز پارلیمنٹ میں کی گئی تقریر آرٹیکل 204کے تحت توہین عدالت کے زمرے میں آ سکتی ہے۔ شہباز شریف کا اپنے مقدمات پر پارلیمانی کمیٹی قائم کرنے کا مطالبہ غیر آئینی ہے اگر پارلیمانی کمیٹیوں کے ذریعے سزا اور جزا کا تعین ہونے لگا تو ملک کا نظام انصاف رک جائے گا۔ پارلیمنٹ کی کارروائی قانون کے مطابق ہی چلنی چاہیئے۔ بدھ کے روز نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے
وفاقی وزیر قانون نے کہا ہے کہ کسی بھی زیر سماعت مقدمے کی کارروائی کو پارلیمنٹ میں زیر بحث نہیں لایا جا سکتا جبکہ نیب ایک خود مختار ادارہ ہے وہ کسی بھی وقت ملزم کو گرفتار کر سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے نے اپنی تقریر کے آغاز میں تو کہا تھا کہ نیب کے مقدمے کے میرٹ پر بات نہیں کریں گے لیکن بعد ازاں ان کی 95فیصد تقریر مقدمے کے تفتیش کے حوالے سے تھے۔ قومی اسمبلی کے رول31اے کے تحت چونکہ زیر سماعت مقدمے پر پارلیمنٹ میں بحث نہیں ہو سکتی۔ اس لئے شہباز شریف کی تقریر آرٹیکل204کے تحت توہین عدالت کے زمرے میں آ سکتی ہے۔ کیونکہ جو باتیں انہوں نے کیں ایک تو یہ مناسب فورم نہیں ہے دوسرا ن کی کیس کے حوالے سے بات کا جواب دینے کے لئے نیب کا کوئی نمائندہ موجود نہیں تھا۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا کہ نیب آرڈیننس کے سیکشن 36کے مطابق چیئر مین نیب یا کسی نیب افسر کو پارلیمنٹ میں طلب نہیں کیا جا سکتا۔ نیب ایک خود مختار ادارہ ہے ۔ وفاقی حکومت یا وزارت قانون ان کے کام میں مداخلت نہیں کرتی۔ انہوں نے کہا کہ شہباز شریف اطمینان رکھیں ان کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہو گی۔ تاہم شہباز شریف کی گرفتاری کے باعث ترکی، چین اور سعودی عرب جیسے دوست ممالک کے ساتھ تعلقات متاثر ہونے کی بات قیاس آرائی پر مبنی ہے اور اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے کیونکہ ریاستوں کے تعلقات شخصیات سے بالا تر ہوتے ہیں۔