بیجنگ (نیوز ڈیسک) سی پیک کے منصوبے کے حوالے سے تحریک انصاف کی نئی حکومت آئی تو مختلف چہ میگوئیوں کا آغاز ہوا کہ سی پیک پر کام رک جائے گا حتیٰ کہ بعض ذمہ دار حکومتی عہدیداروں نے سی پیک پر ایک سال کام روک دینے اور اس پر نظرثانی کرنے جیسے بیانات دیے، ان غیر ذمہ دارانہ بیانات کی وجہ سے چین کو انتہائی تشویش ہوئی اور انہی بیانات کی وجہ سے چینی وزیر خارجہ پاکستان دوڑے چلے آئے اور پاکستان آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کو بھی چین کا دورہ کرنا پڑا۔
اب چین کے ایک اخبار ساؤتھ چائنہ مارننگ پوسٹ نے تشویشناک انکشافات کیے ہیں، اخبار میں چھپنے والے ایک آرٹیکل میں کہا گیا کہ پاکستان سی پیک کے حوالے سے سعودی عرب کے ساتھ قربتیں بڑھا کر چین کو غصہ چڑھانے کا خطرہ مول لے رہا ہے، اس میں لکھا گیا کہ چین واضح کر چکا ہے کہ چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور خالصتاً معاشی پروگرام ہے جو کہ اس کے نام سے ہی ظاہر ہے مگر پاکستان کی جانب سے بیانات جاری ہو رہے ہیں کہ سعودی عرب بھی سی پیک کا سٹریٹجک پارٹنر بننے جا رہا ہے، اس آرٹیکل میں صحافی ٹام حسین نے لکھا کہ بظاہر تو ایسا لگتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی انتظامیہ کو میمو موصول نہیں ہوا، انہوں نے لکھا کہ دو ہفتوں کے دوران دو اہم فیصلے کیے گئے، 2030ء تک سی پیک پر 62 ارب ڈالر خرچ کیے جانے تھے مگر عمران خان انتظامیہ نے اس کا حجم کم کرکے 50 ارب ڈالر کر دیا، جس سے بیجنگ سے گوادر تک جانے والے مغربی روٹ کے لیے فنڈز کی کمی کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔ صحافی نے اپنے آرٹیکل میں لکھا کہ دوسرے پاکستانی حکومت سی پیک کے تحت ریلوے نیٹ ورک کے منصوبوں کا حجم بھی کم کرنے پر غور کر رہی ہے جو کہ معاہدے کے مطابق 8 ارب ڈالر ہے اور حکومتی وزراء کے بیانات کے مطابق اسے 4 ارب ڈالر تک کم کیا جائے گا۔ صحافی نے اپنے آرٹیکل میں پاکستانی حکومت کو انتباہ کرتے ہوئے لکھا کہ پاکستان کے وزیراطلاعات فواد چودھری نے سعودی عرب کو سی پیک میں پارٹنر قرار دیا
لیکن اگلے ہی روز اپنا بیان واپس لے لیا مگر ایسا کرنے سے یہ تاثر مضبوط ہو گیا کہ عمران خان کی حکومت اپنے فولادی بھائی (چین) کے ساتھ کلی طور پر ایماندار یا مخلص نہیں ہے۔ آرٹیکل میں کہا گیا کہ پاکستانی حکومت کے یہ انتہائی شدید اقدامات کرنٹ اکاؤنٹ خسارے پر قابو پانے کی ہنگامی کوشش ہے جو اس وقت ریکارڈ حد تک بڑھ چکا ہے اور دوسری طرف ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے ختم ہو رہے ہیں۔ مزید لکھا گیا کہ پاکستان کی نئی انتظامیہ کے یہ اقدامات چین کی فکر مندی میں اضافہ کر رہے ہیں۔ عمران خان کو تسلی دینے کے لیے چین کی حکومت ممکنہ طور پر سی پیک کے موجودہ اور مستقبل میں ہونے والے معاہدوں کے قواعدوضوابط کو مزید بہتر کرنے پر متفق ہو سکتی ہے، اس کے علاوہ دو طرفہ قرض کی واپسی کی مدت کا ازسرنو تعین بھی ہو سکتا ہے اور چین پاکستانی برآمدات پر ٹیرف میں نرمی بھی لا سکتا ہے مگر اس تمام تر صورتحال میں چینی صدر انتہائی گومگو کی اس صورتحال میں پریشان ہوں گے کہ اس انتہائی اہم منصوبے سے چین کو کچھ حاصل بھی ہوگا یا پھر چین کو معاشی صدمے کا سامنا کرنا پڑے گا۔