اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)ملک کے معروف و سینئر صحافی محمود شام اپنے کالم میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ کراچی کے ایک پانچ ستارہ ہوٹل میں وزیر اعظم کے مشیر عبدالرزاق دائود ( اے آر ڈی) برائے تجارت۔ ٹیکسٹائل۔ صنعت اور پیداوار نے بہت ہی مہارت۔ برجستہ ۔ لطیف اور شگفتہ پیرائے میںماضی کا پوسٹ مارٹم کیا۔ مستقبل کی صورت گری کی اور بہت سوں کے ساتھ ان کے لئے
بھی کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ مشرف کی ٹیم میں شامل تھے۔ مشرف کے بارے میں دونوں باریاں لینے والی پارٹیوں نے ایسا پروپیگنڈہ کیا ہے کہ جیسے وہ ضیا الحق سے بھی بد تر ڈکٹیٹر تھے۔ گزشتہ چالیس برس۔ جو تباہی اور بربادی کے سال ہیں ۔ ان میں مشرف کے پہلے تین سال ایک خوشحال جزیرے کی طرح ہیں۔ ہم ایک کہاوت کا سہارا لے لیتے ہیں بد ترین جمہوریت بہترین آمریت سے بہتر ہے۔ اب زمانہ جمہوریت اور آمریت کے درمیان مقابلے کا نہیں بلکہ بہتر حکمرانی اور ابتر حکمرانی کا ہے۔عمران کی ٹیم میں اسد عمر۔ عبدالرزاق دائود اور ڈاکٹر عشرت حسین۔ ایسی تکون ہیں کہ اگر انہیں عمران خان نے آزادی سے کام کرنے دیا تو معیشت نہ صرف پٹری پر آجائے گی بلکہ ملک میں خوشحالی کا آغاز بھی ہوسکتا ہے۔سعودی عرب سے معاملے میں ریکوڈک کو بھی شامل دیکھ کر مجھے یقین آیا کہ یہ حکومت واقعی اقتصادی استحکام لانا چاہتی ہے۔ محمود شام مزید لکھتے ہیں کہ بات ہورہی تھی اے آر ڈی کے بزنس مینوں سے خطاب کی۔دونوں طرف سے کھل کر باتیں ہوئیں۔ مجھے ایک عزیز نے اس کی روداد بہت مزے لے لے کر سنائی۔ یہ عزیز سرکاری شخصیتوں سے بہت کم متاثر ہوتے ہیں لیکن رزاق دائود کو سلام کررہے تھے۔ ابتدا تو اس طرح ہوئی جیسے ہمارے ہاں سوال جواب کے وقفے میں سوال کم تقریریں زیادہ ہوتی ہیں۔ایک دوسرے پرسبقت لے جانے کے لئے ایسا لہجہ اختیار بھی کیا جاتا ہے
جس سے ظاہر ہو کہ ہم کسی وزیر مشیر کو خاطر میں نہیں لاتے۔ ہم سب سے زیادہ با خبر ہیں۔ عبدالرزاق دائود نے سب کی تقریریں بڑے غور سے سنیں۔ موضوع زیادہ تر سی پیک تھا۔ اور چین پر بہت زیادہ تنقید۔ اور ایکسپورٹ۔ مختلف صنعتوں سے تعلق رکھنے والے مالکان نے اپنی خطابت کا مظاہرہ کیا۔ اور آس پاس کے لوگوں سے داد بھی لی۔وزیر اعظم کے مشیر بھی اسی بزنس برادری سے
تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے دائو پیچ جانتے ہیں۔ ان کی اپنی کمپنی ہے اور وہاں وہ خاصی جدت کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ انہوں نے سارے سوالات کے مدلل جواب دئیے اور بجاطور پر کہا کہ بزنس مین کا مسئلہ یہ بن گیا ہے کہ وہ صرف اپنے بزنس کا فروغ چاہتا ہے۔ پورے ملک کی ترقی نہیں چاہتا۔ رعایتیں مانگتے ہیں تو صرف اپنے لئے۔آپ مجموعی پیشرفت کے لئے کوشش کریں تو آپ کی صنعت بھی خود ترقی کرے گی۔
رزاق دائود یہ بھی کہہ رہے تھے کہ مشرف دَور میں ہم نے اقتصادی معاملات بہت درست کئےتھے۔ اب آکر دیکھا ہے کہ دس سال میں بہت کچھ پیچھے چلا گیا ہے۔مجھے بہت افسوس ہورہا تھا کہ میں وہاں کیوں نہیں تھا۔ میں نے مجید عزیز صاحب سے بات کی ۔ بہت ہی با خبر صنعت کار ہیں۔ سیاسی اور سفارتی معاملاتپر بھی نظر رکھتے ہیں۔ زبیر موتی والا سے بھی گفتگو ہوئی۔یحییٰ پولانی سے بھی تصدیق چاہی۔
سب کا کہنا تھا کہ دن بھر مختلف میٹنگیں ہوئیں۔اس میں بنیادی خواہش یہی تھی کہ ایکسپورٹ اورامپورٹ میں جو فرق ہے اسے دور کیا جائے اور اس کے لئے ہمارے صنعت کاروں اور برآمد کنندگان کو عالمی معاملات پر نظر رکھنا ہوگی۔ مشیر وزیر اعظم نے کہا کہ امریکہ اور چین میں جو تجارتی جنگ چھڑی ہوئی ہے ہمیں اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ خاموش تماشائی بن کر نہیں رہنا چاہئے۔
انہوں نے صاف صاف کہا کہ ہم نے عمران خان سے کہہ دیا ہے کہ معاملات ٹھیک کرنے ہیں تو وہ ہمارے کام میں مداخلت نہیں کریں گے۔ بہت سے صنعتکاروں کی فرمائش تھی کہ انہیں وزیر اعظم سے ملوایا جائے۔رزاق دائود نے کہا کہ کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ معاملات مجھے اور آپ کو ٹھیک کرنے ہیں۔ سیلفی اور فوٹو سیشن کے لئے ملنا ہے تو اسلام آباد آجائیے۔ ملاقات ہوجائے گی۔ صنعت کاروں اور
مشیر وزیراعظم نے اس امر پر اتفاق کیا کہ ایکسپورٹ میں Value Added ۔ ( قدر افزودگی) مصنوعات کو ترجیح دی جائے۔خام مال برآمد نہ کیا جائے۔ جیسے کپاس یہاں سے برآمد ہوتی ہے۔ پھر لباس کی صورت میں واپس آجاتی ہے۔میں وہاں ہوتا تو وہاں کی شگفتگی۔ لطافت اور مشیر برائے وزیرا عظم کی برجستہ گفتگو کو اور بہتر انداز میں آپ کے سامنے لاتا۔ یہ تو میں بتانا بھول ہی گیا کہ
اے آر ڈی جب اسٹیج پر سوالوں کے جواب دینے آئے تو سارے میڈیا سے درخواست کی گئی کہ وہ ہال خالی کردے۔رزاق دائود اعداد و شُمار کی مدد سے بات کررہے تھے۔ آج کے دَور میں ’ڈیٹا‘ ( اعداد و شُمار۔ معلومات) سب سے بڑی دولت بھی ہے اور طاقت بھی۔ اعداد و شُمار جذباتی نہیں ہوتے ۔ حقیقت ہوتے ہیں۔ سیاستدان ڈیٹا یاد رکھنااپنی توہین سمجھتے ہیں۔