اسلام آباد(این این آئی) ارکان سینیٹ نیہے کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبوں کی تفصیلات سے پارلیمنٹ کو آگاہ نہیں کیا جارہا جبکہ آئی ایم ایف وفد کو سی پیک منصوبوں کی تفصیلات فراہم کی جارہی ہے، موجودہ وزیر خزانہ نے الیکشن سے قبل کہا تھا کہ ہم آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے کیونکہ آئی ایم ایف مالیاتی سامراج ہے،پاکستان کی معیشت پر قدغنیں لگائیں گئیں مگر مناسب نہیں تھا کہ اس اعلان کے بعد حکومت آئی ایم ایف سے رجوع کرے،منی بجٹ کے ذریعے لوگوں کو ذبح کیا گیا،
غریبوں کو ذبح کیے بغیر بھی ریونیو حاصل کرسکتے تھے،جب سے معیشت کا نام سنا ہے تب سے بحران ہی دیکھ رہا ہوں،ملک میں دھرنے نہ ہوتے تو ملک کہاں سے کہاں ہوتا،کرپشن امریکہ میں بھی ہوتی ہے،کاروبار کرنا حکومت کا کام نہیں،اداروں کی نجکاری کی جائیں،قرضوں کی ادائیگی کے حوالے سے کوئی میکنزم نہیں دیا گیا،کرپشن کرنے والے بیوروکریٹس،سیاستدانوں، جرنیلوں،ججوں، میڈیا ہاوسز کے مالکان کو پھانسی پر نہ لٹکایا تو کم از کم ہاتھ کاٹ دینا چاہیے۔پیر کو سینیٹ کے اجلاس میں منی بجٹ پر اظہار خیال کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر میاں رضا ربانی نے کہا کہ حکومت آئی ایم ایف وفد سے ہونے والی مذاکرات کی تفصیلات سے ایوان کو آگاہ کیا جائے،موجودہ وزیر خزانہ نے آئی ایم ایف کے پاس نہ جانے کا کہا تھا لیکن الیکشن کے بعد ایک انٹرویو میں انہوں نے کہاکہ اگر ضرورت پڑی تو پاکستان آئی ایم ایف سے رجوع کرے گا،آئی ایم ایف کی پاکستان آنے والی ٹیم لگتا ہے تفتیش کیلئے آئی ہے،آئی ایم ایف نے سی پیک منصوبوں کی تفصیلات مانگی ہیں،پارلیمنٹ کو ان منصوبوں تفصیلات سے ابھی تک لاعلم رکھا گیا،آئی ایم ایف وفد نے مذاکرات میں دوبارہ نجکاری کا راگ الاپا ہے، نجکاری مزدور کش اقدام ہے، اس کو پیپلز پارٹی کی حکومت میں بھی مخالفت کی تھی آئندہ بھی کریں گے۔میاں رضا ربانی نے کہا کہ حکومت سی پیک کے منصوبوں کو ری وزٹ یا
کم کرنیکا سوچ رہی ہے،حکومتی مشیر تجارت کے ایک انٹرویو سے سی پیک پر چین نے بھی تشویش کا اظہار کیا،آرمی چیف کوخود چین جا کر چینیوں کو مطمئن کرنا پڑا،سعودی سفیر نے بار بار اس حوالے سے مشیر تجارت سے تفصیلات لینے کی کوشش کی، سی پیک میں سعودی عرب کو شراکت دار بنانے سے پہلے کیا حکومت نے چین کا اعتماد میں لیا گیا، اگر مشاورت ہوئی تو چین کا ردعمل کیا تھا،بظاہر چین سے پوچھے بغیر حکومت نے منصوبے میں سعودی عرب کو شمولیت کی دعوت دی،
اتنا بڑا فیصلہ کرنے سے پہلے اچھا ہوتا پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا جاتا۔ انہوں نے کہا کہ سعودی عرب کو گوادر میں آئل سٹی قائم کرنے کی دعوت دی گئی، اس بارے میں پارلیمنٹ کو تو کُجا بلوچستان کی صوبائی حکومت سے بھی مشاورت نہیں کی گئی،یہ صرف معاشی معاملہ نہیں ہوگا بلکہ یہ فیصلہ دفاعی اعتبار سے بھی اہم ہوگا، ایک طرف چین دوسری طرف چاہ بہار ہے تو اس صورتحا میں سعودی عرب کا گوادر میں بیٹھنے سے کیا صورتحال پیداہوگی،ہمیں پتہ ہے کہ سعودی عرب کس بلاک میں ہے،
ریکوڈک سعودی عرب کو دیا جارہا ہے یا سعودی کمپنیوں کو ریکوڈک میں سرمایہ کاری کی اجازت کی گئی ہے، ریکوڈک پر مکمل صوبے کا اختیار ہے اس بارے میں وفاقی حکومت کا سعودی عرب سے معاہدہ کرنا آئین کے آرٹیکل271 کی خلاف ورزی ہے۔مسلم لیگ ن کے پارلیمانی لیڈر سینیٹر مشاہداللہ خان نے کہا کہ کہا جاتا ہے کہ ملک کا بیٹرا غرق کیا گیا،لفظ بیٹرا غرق کو ستر سالوں میں اتنی دفعہ سنا ہوں کہ اس لفظ کی افادیت ہی کم ہو گئی ہے،2008 سے 2013 تک قرضوں میں175فیصد اضافہ ہوا
جبکہ2013سے2018 میں صرف 80فیصد اضافہ ہوا ہے،اس حساب سے مسلم لیگ ن کی حکومت میں قرضوں میں کم شرح کا اضافہ ہوا ہے،مسلم لیگ ن کی حکومت پر صرف قرضے لینے کا الزام لگایاجاتا ہے مگر قرضوں سے جو میگا منصوبے شروع کیے گئے ان کا ذکر کوئی نہیں کرتا،کرپشن امریکہ میں بھی ہوتی ہے،یہ ایک حقیقت ہے،ڈیزل نہ ہونے سے ٹرینیں رک جایا کرتی تھیں،ہم نے ریلوے کو 120کی سپیڈ پر چلایا۔جماعت اسلامی کے سینیٹر طلحہ محمودنے کہا کہ
اس بجٹ کا بوجھ اوپر سے نیچے تک پڑے گا،یقیناًحکومت کو معاشی مشکلات کاسامنا ہے،مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ غریبوں پر بوجھ ڈالا جائے،حکومت کو ملک میں سرمایہ کاروں کو لانے کے حوالے سے اقدامات اٹھانے چاہیے تھے،حکومت آئی ایم ایف سے رجوع کریگا تو قول و فعل میں تضاد ہوگا،حکومت کو ٹیکس نظام کو بہتر کر کے ٹیکس نیٹ کو بڑھانا ہوگا،ایسا سازگار پیدا کرنا ہوگا کہ سرمایہ کار خود چل کر پاکستان آئیں۔سینیٹر پروفیسر ساجد میر نے کہا پی ٹی آئی الیکشن سے پہلے پراپیگنڈا کرتی تھی
کہ ان کے پاس مالیاتی جادو ہے،غریبوں کو کوئی میکرو انڈیکیٹر نہیں صرف ہانڈی روٹی کی ضرورت ہوتی ہے،اس بجٹ کا تعلق عام آدمی سے ہرگز نہیں،حکومت کے اقدامات صرف نمائش کے سوا کچھ نہیں،پی ایس ڈی پی میں کٹوتی کا مقصد ترقی کی مخالفت کرنا ہے۔سینیٹر محمد کبیر احمد شاہی نے کہا کہ منی بجٹ میں ایکسائز ڈیوٹی میں ردوبدل کر دی گئیں،یہ نہیں بتایا گیا کہ قرضے کیسے ادا ہوں گے،میرے حلقے کے عوام کے مسائل کیسے حل ہوں گے،منی بجٹ لا کر اس ایوان کا وقت ضائع کیا گیا،
پچھلے چار بجٹ سے بلوچستان کے بارے میں رو رہا ہوں ،بلوچستان کو لاوارث سمجھا گیا،گوادرکوسعودیہ کو دیا جارہا ہے،سی پیک میں سعودی عرب کو شامل کیاجارہا ہے مگر بلوچستان سے پوچھا تک نہیں۔آغا شاہ زیب درانی نے کہا کہ اس بجٹ کے ذریعے پی ایس ڈی پی میں کٹوتی کر کے دو یونیورسٹیوں کو ختم کیا گیا،پانی کے بیس منصوبوں کو نکال دیا گیا۔سینیٹر سیسی پلیجو نے کہا کہ این ایف سی کے بغیر بجٹ آنا نا انصافی ہے،سب سے زیادہ معاشی قتل سندھ کا کیا گیا،
جن ڈیموں کو تین صوبوں نے مسترد کری ہیں ان کی دوبارہ بات ہو رہی ہے،اس سے ان چھوٹے صوبوں کے عوام کے دلوں پر کیا گزر رہی ہو گی،ایک طرف آئین کی بالادستی کی بات ہوتی ہے دوسری طرف صوبوں کے اختیارات کم کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔سینیٹر میاں عتیق شیخ نے کہا کہ ایک اور خسارے کا بجٹ سامنے آیا،جب سے معیشت کا سنا بحران ہی دیکھا،ایف بھی آر میں ٹیکس نیٹ بڑھانے کی صلاحیت ہی نہیں ،غریبوں پر سارا بجٹ کا بوجھ پڑا ہے،
راولپنڈی اسلام میٹرو کے کیاریوں میں20 روپے سے 40روپے کرنے سے تنخواہ دار طبقہ متاثرہوگا۔پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر اعظم خان سواتی نے کہا کہ پچھلی حکومت کو ایک سال اور ملک جاتی تو ملک آئی سی ایو میں نہیں بلکہ جان ہی نکل جاتی،بجٹ خسارہ اس وقت6.6 فیصد تک پہنچ گیا ہے،250ارب کے اخراجات میں کمی کی،گاڑیوں اور بھینسوں کا عام آدمی سے کوئی تعلق نہیں تھا،5ہزار لگژری مصنوعات پر ٹیکس کو بڑھایا گیا،یوٹیلٹی اسٹورز 9.5 ،ریلوے 40 ارب روپے کے
خسارے میں ہیں،اورینج ٹرین کیلئے120ارب روپے کی سبسڈی کی ضرورت ہے،قومی ادارے خسارے میں چل رہے ہیں،مسلم لیگ کی حکومت نے 28 ہزار ارب کا قرضہ چھوڑا،نیب کو چاہیے کہ جن کے اوپر کرپشن کے الزامات ہیں ان کے خلاف تحقیقات کر کے انصاف کے کٹہرے میں لایا جائیں۔اعظم سواتی نے کہا کہ کرپشن کرنے والوں کو اگر پھانسی پر نہیں چڑھا سکتے تو کم از کم ان کے ہاتھ کاٹ دینا چاہیے،بیوروکریٹ، سیاستدان، ججز، جرنیلوں اور میڈیا ہاؤسزکے خلاف بھی بلا تفریق احتساب ہونا چاہیے۔
سینیٹر مہر تاج روغانی نے کہا کہ بجٹ میں ردو بدل لازمی ہوتا ہے،بجٹ سے چیخیں غریبوں کی نہیں امیروں کی نکلیں گی۔ بجٹ بحث میں سینیٹر اورنگزیب خان، نزہت صادق، سینیٹر کلثوم پروین، مصطفی نواز کھوکھر،ساہ زیب درانی،خانزادہ خان ویگر نے بھی خطاب کیا۔اجلاس میں رضا ربانی نے تقریر کے دوران اٹھائے گئے سوالات کے جواب کیلئے وفاقی وزیرخزانہ موجود نہ ہونے پر وزیر مملکت کے جواب سننے سے انکار کرتے ہوئے ایوان سے احتجاجاََ واک آؤٹ کرگئے۔ سینیٹ کا اجلاس بدھ کی دوپہر 3;00بجے تک ملتوی کردی۔