اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)ملک کے معروف صحافی ، کالم نگار و تجزیہ کار جاوید چوہدری اپنے کالم میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ امریکا اور عالمی بینک کے ماہرین نے ہمیں 1960ءکی دہائی میں وارننگ دی آپ اگر زندہ رہنا چاہتے ہیں تو آپ دس سال میں منگلا اور تربیلا جیسا ایک ڈیم ضرور بنائیں‘ ہم بھی اس حقیقت سے واقف تھے چنانچہ ہم نے ساٹھ اور ستر کی دہائی میں بجلی کے
محکمے کو واپڈا میں شامل کر لیا‘ بجلی اس سے قبل آبپاشی کے محکمے کے ماتحت ہوتی تھی‘ ہم نے امریکا سے بجلی کی ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن لائنیں بھی بچھوالیں‘ آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی دنیا میں پاکستان اور جاپان صرف دو ملک ہیں جن میں نیشنل گرڈ سٹیشن ہیں اور پورا ملک بجلی کی ایک نیشنل ٹرانسمیشن لائین کے ساتھ منسلک ہے جبکہ باقی ملکوں میں بجلی کے چھوٹے چھوٹے پلانٹس ہیں اور یہ پلانٹس صرف علاقے کی ضرورت پوری کرتے ہیں‘ہم نے اس زمانے میں سوچا تھا ہم بجلی بیچ کر پرانے ڈیموں کی لاگت بھی پوری کرلیں گے اور نئے ڈیم بھی بنا ئیں گے‘ ہم نے ورلڈ بینک کی مدد سے منگلا‘ پھر کالاباغ اور پھر تربیلا ڈیم بنانا تھا‘ ہمارے انجینئرز نے اس دوران ٹرینڈ ہو جانا تھا اور ہم نے اس کے بعد ہر دس سال میں دیامر بھاشا جیسا کوئی نہ کوئی بڑا ڈیم بنانا تھا‘ کالاباغ ڈیم آسان تھا‘ کالاباغ دریائے سندھ پر ڈیم کےلئے آخری پوائنٹ ہے‘ اس کے بعد کراچی تک ڈیم نہیں بن سکتا‘ میں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں دریائے سندھ کا بالائی حصہ ڈیم کےلئے مناسب نہیں‘ دیامر بھاشا سے اوپر بڑا ڈیم نا ممکن ہے چنانچہ کالاباغ ہمارے انجینئرز کے سیکھنے کی آخری تجربہ گاہ تھا۔ہم نے ورلڈ بینک کو پیشکش کی آپ صرف منگلا اور تربیلا بنا دیں کالاباغ ڈیم ہم خود بنا لیں گے چنانچہ امریکی کمپنیاں 1976ءمیں تربیلا ڈیم بنا کر چلی گئیں لیکن آپ بدقسمتی ملاحظہ کیجئے ہم 2018ءتک کالاباغ نہیں بنا سکے‘ کیوں؟ یہ ایک دکھی داستان ہے۔