اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)ملک کے معروف صحافی اعزاز سید اپنے آج کے کالم میں لکھتے ہیں کہ علم ان کی شناخت، شعوران کی طاقت ، دلیل ان کا بیانیہ ، شہرت ان پر مہربان اور دولت انکے گھر کی لونڈی، یہ ہیں سیدہ ممنات جنہیں میں اور آپ جگنو محسن کے نام سے جانتے ہیں۔ بیٹی ، ماں اور اہلیہ کے تین روپ تو ان کے گھر والے زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ مگر لوگ انہیں صحافی ،
ٹی وی اینکر، کاشتکار، پبلشر، سماجی کارکن اور انسانی حقوق کی علمبردار کے طور پر پہچانتے ہیں ۔ حالیہ انتخابات میں اوکاڑہ سے پنجاب اسمبلی کی رکن منتخب ہو کر سیاست بھی ان کی ایک نئی شناخت بن گئی ہے ۔زندگی قہقہوں ، آسائشوں، چیلنجز اور فتوحات سے مزین رہی ہے ۔ پیدا لاہور میں ہوئیں ، پلی بڑھیں اوکاڑہ اور لاہور کے رستوں اور پکڈنڈیوں پر۔ نانا سر مراتب علی اپنے وقت کی عظیم شخصیت اور والد سید محسن شاہ فروٹ فارمز شیرگڑھ کے کرتا دھرتا اور مالک۔ ابھی سولہ سال کی تھیں کہ برطانیہ میں بورڈنگ میں داخل کرا دیا گیا۔ اے لیول کے بعد خود کیمبرج یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔ اکنامکس ، بارایٹ لا اور فلسفہ کی تعلیم بھی حاصل کی ۔جب جگنو برطانیہ میں پڑھ رہی تھیں تو ان کی ملاقات نجم سیٹھی سے ہوئی۔ جگنو کے برعکس نجم سیٹھی کا تعلق کسی کھاتے پیتے گھرانے سے نہیں تھا۔ سوچ کا انقلابی اور تعلیم اسکالرشپس کے زریعے۔ بائیں بازو کی سوچ کے سلسلے میں غداری کے الزام میں اس وقت کی حکومت کی طرف سے جیل بھی کاٹ چکا تھا۔ مگر تھا دبنگ اور روشن خیال۔ دونوں کی برطانیہ اور پاکستان میں ملاقاتیں جلد شادی کے بندھن میں تبدیل ہوگئیں۔ آج اگراپنے شعبے میں نجم سیٹھی شہنشاہ جہانگیر ہیں تو جگنو بھی ملکہ نورجہاں۔دونوں نے مل کر لاہور سے ایک انگریزی ہفت روزہ شائع کیا اور اس کو کامیاب بھی کیا۔ کتابوں کی
اشاعت صرف کاروبار ہی نہیں انکا شغل بھی ہے۔ نجم سیٹھی کو سال انیس سو ننانوے میں گرفتار کیا گیا تو یہ جگنو ہی تھیں جو میدان میں اتریں اور پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں سیٹھی کا کیس پیش کیا۔ نتیجتاً ان کورہا کردیا گیا۔حقیقت یہ ہے کہ لاہور کے ڈرائنگ رومز ملکی سیاست و کلچر کا گڑھ ہیں۔ آج، کل اور آنیوالے کل کے کردارکچھ ڈرائنگ رومز میں اسطرح پائے جاتے ہیں کہ جیسے میز
پر کانٹے اور چھریاں۔ جگنو اور نجم کے ڈرائنگ روم کا لاہور کے ایسے ڈرائنگ رومز میں وہی مقام ہے جو شاعری میں غالب اور میر کا۔ اتنے وسیع سماجی رابطوں اور مختلف براعظموں پر محیط تعلقات کے باوجود جگنو نے انتخابات میں حصہ لیا اورفتح بھی حاصل کی۔ یہ سب کچھ حیران کن ہے ۔میں ذاتی طور پر صحافیوں کے سیاست میں آنے کے بالکل حق میں نہیں۔ مجھے اپنے
پیشے صحافت سے عشق ہے۔ مگر سوچ رہا ہوں کہ سیاست میں آکرلوگوں کے مسائل کم کرنا اور ان کی زندگیوں کو آسان بنانے کے لیے قانون سازی کرنا بہرحال آج کی صحافت سے ارفع ہے۔ شرط یہ کہ دامن صاف ہو۔سچ یہ ہےکہ ایک سال پہلے مجھے جگنو نے فون پر بتایا تھا کہ وہ اوکاڑہ سے آزاد حیثیت میں انتخابات لڑنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ مجھے یہ خیال پسند نہ آیا ۔ اول تو وجہ یہ کہ
حلقے کی سیاست بڑا جان جوکھوں کا کام ہے ۔ دن رات ووٹروں سے رابطہ ، تھانہ کچہری کے الٹے سیدھے کام ۔۔ دوسرا حلقہ بھی پنجاب کا جہاں لوگ دوسرے صوبوں کی بہ نسبت زیادہ قدامت پسند ہیں اور تو اور اوکاڑہ میں بھی لوگوں کا ایک طبقہ انتہا پسند ہے۔تیسری اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ جگنو آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لےرہی تھیں۔ جو ازخود بڑا چیلنج تھا۔ آپ کی اپنی شہرت
اور پارٹی پلیٹ فارم دونوں کے الگ الگ ووٹ مل کر ایک بڑا ووٹ بینک بنا دیتے ہیں ۔ جس سے جیت آپکا مقدر بن جاتی ہے ۔ پارٹی کے بغیرانتخابات میں حصہ لینے سے تو بڑے جغادری سیاستدانوں کے چھکے چھوٹ جاتے ہیں۔اس تمام پس منظر میں ان کا سیاست میں حصہ لینا مجھے دل ہی دل میں کھٹکا بھی مگر احترام اور ان کی سینیارٹی کو مد نظر رکھتے ہوئے کچھ اعتراض کرنے کی ہمت نہ کرپایا۔
ادھر جگنو بھی ڈٹی ہوئی تھیں۔ خیال آیا کہ انتخابی نتائج کے بعد وہ خود سیاست میں حصہ لینے کے فیصلے پر پچھتائیں گی۔نتیجہ میری توقعات کے بالکل برعکس نکلا۔ انہوں نے اپنے مد مقابل تیرہ امیدواروں کوچت کردیا اوربحیثیت آزاد امیدوار کامیابی سے ہمکنار ہوئیں ۔حالیہ انتخابات میں جنرل نشستوں پر پنجاب اسمبلی میں صرف چار خواتین منتخب ہوئی ہیں۔ ان میں سے دو تحریک انصاف
اور ایک کا تعلق مسلم لیگ ن سے ہے جگنو محسن اگرچہ ذاتی طور پر سیاست میں نہیں رہیں لیکن انکا تعلق بھی تاریخی سیاسی خانوادے سے ضرورہے۔عید سے پہلے لاہور ان کے گھر گیا ۔ جگنو صاحبہ اورنجم صاحب سے مختلف موضوعات پر طویل گپ شپ ہوئی۔ نجم سیٹھی میرے استاد ہیں۔ ایک انگریزی روزنامے میں وہ میرے ایڈیٹر بھی تھے۔ دونوں مسکرا رہے تھے اور میں سوچ رہا تھا کہ
ان دونوں میں کامیابی کی وجہ کون ہے ؟ پھر خیال آیا کہ دونوں ہی اپنی اپنی دنیائوں میں کامیاب اور ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں ۔ اگر نجم خوشبو تو جگنو روشنی ہے۔ روشنی اور خوشبو ساتھ ساتھ کتنے اچھے لگتے ہیں۔میں نے پوچھا کہ سیاست میں آنے کی ضرورت کیا تھی ؟ بولیں وہ تو گئیں تھیں اپنے والد کے نام سے قائم فاونڈیشن سنبھالنے جسکے زیرانتظام تعلیمی ادارے
اور اسپتال علاقے میں کام کررہے ہیں ۔ مگر علاقے میں مقامی لیگی وزیر کے ہاتھوں تنگ لوگ ان کے پاس آتے۔ وہ ان کی مدد کرتیں اسطرح آہستہ آہستہ وہ بھی سیاست میں آنے پر مجبور ہوگئیں۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ن لیگ نے ان کے لیے اپنے امیدوار رضاگیلانی کو ٹکٹ نہ دیا۔ مجھے بتایا گیا کہ دراصل ٹکٹ تو دیا گیا تھا مگر رضا گیلانی نے آخری لمحے کا انتظار کیا اور ٹکٹ الیکشن کمیشن
میں جمع نہ کرایا۔ شاید ان کا خیال تھا کہ وہ آزاد حیثیت میں سیٹ جیت کر اپنی پارٹی اور پی ٹی آئی سے بارگین کرتے۔ حیران کن بات تو یہ ہے کہ رضاگیلانی جو خود صوبائی وزیر رہ چکے کے بارے چیف جسٹس نے بھی ہجرہ شاہ مقیم کے ترقیاتی فنڈز کی مبینہ خرد برد کا نوٹس لے رکھا تھا مگر انہیں پھر بھی لیگی قیادت نے ٹکٹ جاری کیا۔ مگر انتخابی فیصلہ جگنو کے حق میں ہی آیا۔
جگنو کا مسلم لیگ ن کے لوگوں سے قریبی تعلق ہے مگر دوستیاں تحریک انصاف، مسلم لیگ ق اور دیگر سیاسی خانوادوں سے بھی ہیں ۔ وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب سے قبل بات ہوئی تو پوچھا اسمبلی میں وزارت اعلیٰ کا ووٹ کسے دیں گی ؟ بولی تحریک انصاف کو ۔۔ میں حیران ہوا کہ تحریک انصاف اور عمران خان تو ان کے شوہر کے بارے الٹے سیدھے الزامات بھی عائد کرتے رہے۔
جب سب الزامات میں منہ کی کھانا پڑی تو انہوں نے معذرت کا تکلف بھی نہ کیا اس تمام کے باوجود ووٹ اسی جماعت کو ؟ جگنو بولیں وقت ضرور حساب لے گا۔ میرے کندھوں پر اپنے عوام کی بھاری زمہ داری عائد ہوئی ہے۔ حلقے کے لوگوں کے کام کروانے ہیں۔ بلدیاتی نظام کو بہتر اور پولیس اصلاحات کرنا ہیں اس لیے فی الحال ووٹ انہیں ہی دوں گی مگر اپنی آزاد حیثیت برقرار رکھوں گی۔
سوچتا ہوں کہ اصل تبدیلی تو یہ ہے کہ ایک باعلم عورت اپنے گھرکا آرام اور میڈیا کی چکا چوند چھوڑ کر لوگوں کے لیے میدان میں آگئی۔ وہ اصلاحات چاہتی ہے بدتمیزی نہیں۔ لوگوں کی خدمت مگر جتلائے بغیر۔ اگر باقی بھی ایسا سوچ لیں تو کیا ہی بات ہو۔جگنوشیرگڑھ ، ضلع اوکاڑہ کے عوام کے لیے اپنی تمام آسائشیں چھوڑ چکی ہیں کہتی ہیں کہ وہ اپنے عوام کے لیے کچھ حاصل کرنا چاہتی ہیں۔
امریکی ریاست میسا چوسس کے ایک غریب نوجوان سے ترقی کرکے سیاست میں نام کمانے اور تعلیمی انقلاب لانےوالے ہوریس مین نے کہا تھا،Be ashamed to die until you have won some victory for humanity.ترجمہ : شرمندہ اس بات پر ہونا چاہیے کہ آپ انسانیت کے لیے کوئی جیت حاصل کرنے سے پہلے مرگئے۔اصل جیت یہی ہے کہ آپ انسانیت کے لیے کچھ حاصل کریں۔ شاید جگنو ایسی ہی کسی جیت کے حصول کے لیے نکلی ہیں۔ انتخابات فقط فتح ہیں ، جیت عوامی بہتری کا حصول ہے ۔ میں ان کی جیت کے لیے دعا گو رہوں گا۔