اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)معروف کالم نگار ظفر محمود اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ بہت کم لوگوں کو احساس ہو گا کہ کابینہ ڈویژن کے پاس پاکستان کی تاریخ کے حوالے سے ایک انمول خزانہ محفوظ ہے۔ پاکستان کی پہلی کابینہ کی اوّلین میٹنگ سے لے کر آج تک کے تمام اجلاسوں کی رُوداد، واقعات کی صحیح تصویر دکھاتی ہے۔ ہماری انتظامی تاریخ کے مدوجزر کو سمجھنے کے لئے اس سے
بہتر معلومات فراہم نہیں ہو سکتیں۔ اِس کے علاوہ کابینہ ڈویژن کے دو اداروں، نیشنل آرکائیوز (National Archives) اور نیشنل ڈاکومینٹیشن ونگ (National Documentation Wing) میں دستیاب دستاویزات، علیحدہ وطن کے لئے ہماری قومی جدوجہد کی درست طور پر عکاسی کرتی ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں ہر بات کو خفیہ رکھنے کا رواج ہے۔ دُوسرے ملک پچیس تیس سال کے بعد مخفی اور خفیہ ریکارڈ بھی منظرِ عام پر لے آتے ہیں۔ کاش پاکستان میں بھی ایسا ہو۔ طالب علموں اور تحقیق کرنے والوں کو یہ سہولت میسر آئے تو اُن کی تحریر ٹھوس حقائق اور واقعاتی سچائی کی بنیاد پر بہت سی غلط فہمیوں کا ازالہ کر دے۔قومی ترانہ کسی بھی ملک کی پہچان سمجھی جاتی ہے۔ اِس کی دُھن مخصوص قومی اور بین الاقوامی تقریبات کے شروع میں سنائی جاتی ہے۔ تعلیمی اداروں میں اِس کے بول بھی گائے جاتے ہیں۔ اِسے ہر ملک کی قومی عظمت اور عوامی اُمنگوں کا ترجمان سمجھا جاتا ہے، مگر ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا۔ بہت سے ممالک میں انقلاب آئے، نظام حکومت یکسر بدلے اور قومی ترانہ بھی تبدیل ہو گیا۔ سعودی عرب کے موجودہ ترانے میں اللہ کی شان بیان کرنے کے ساتھ، بادشاہ کی درازیٔ عمر کے لئے دُعا بھی شامل ہے۔ ایران میں بھی شاہِ ایران کی حکومت کا تختہ اُلٹا تو 1990ء میں نیا ترانہ لکھا گیا۔ ترکی میں بھی کمال اتاترک نے خلافت ختم کی
تو 1921ء میں ’’آزادی کے مارچ‘‘ کے حوالے سے نیا ترانہ وجود میں آیا۔ ہندوستان نے اپنے ترانے کے لئے رابندر ناتھ ٹیگور کی نظم منتخب کی جسے پہلی دفعہ 27دسمبر 1911ء میں انڈین نیشنل کانگرس کے اجلاس کے دوران گایا گیا تھا۔ مشرقی پاکستان علیحدہ ہوا تو بنگلہ دیش کی حکومت نے بھی اپنے قومی ترانے کے لئے رابندر ناتھ ٹیگور کا لکھا ہوا نغمہ ’’آمار سونار بنگلہ‘‘،
میرا سنہرا بنگال چن لیا۔ اِس لحاظ سے اِس باکمال شاعر کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہوا کہ اُس کی لکھی ہوئی دو نظمیں دو ملکوں کا قومی ترانہ بن گئیں۔ امریکہ کو آزادی 1776ء میں ملی مگر قومی ترانے کا انتخاب 1814ء میں ہوا۔ فرانس کا قومی ترانہ 1792ء ، جرمنی کا 1926ء اور سوویٹ یونین کا ترانہ 1944ء میں لکھا گیا۔ دُنیا کی تاریخ کا سب سے قدیم ترین
قومی ترانہ برطانیہ کا ہے جس میں بنیادی طور پر یہ دُعا (God Save the Queen) ’خدا ملکہ کو محفوظ رکھے‘ شامل ہے ۔ گو اِس ترانے کو بھی سرکاری حیثیت 1825ء میں ملی۔ اِن مثالوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ بہت سے ممالک نے برسوں بعد قومی ترانے کے بارے میں حتمی فیصلہ کیا۔پاکستان کے لئے کابینہ نے پہلی دفعہ 27 فروری 1948ء کے اجلاس میں نئی مملکت کے لئے
ایک قومی ترانے کی ضرورت کو محسوس کیا۔ ایک نو رُکنی کمیٹی بنائی گئی جس کے سربراہ سردار عبدالرب نشتر (وزیر مواصلات) تھے۔ اِس کے اراکین میں عبدالستار پیرزادہ (وزیر زراعت اور صحت) اور چوہدری نذیر احمد رکن آئین ساز اسمبلی کے علاوہ، کئی نامور قلم کار بھی شامل تھے۔ اِن اراکین میں سے دو نام جناب حفیظ جالندھری اور زیڈ اے بخاری اُردو زبان اور جسیم الدین،
بنگالی زبان کے حوالے سے مشہور تھے۔ یہ کمیٹی دسمبر 1948ء میں قائم ہوئی۔ اِس کے قائم ہونے سے پہلے ہی پانچ، پانچ ہزار روپے کے دو انعامات کا اعلان ہو چکا تھا۔ ایک انعام ترانے کی دُھن بنانے اور دُوسرا ترانے کے بول لکھنے کے لئے مختص تھا۔ اُس زمانے میں یہ ایک خطیر رقم تھی۔ یہ فراخ دلانہ پیش کش، جناب احمد اے آر غنی کی طرف سے کی گئی جو اپنے مرحوم والد کی یاد میں
انعام دینا چاہتے تھے۔ یہ بات بہت دلچسپ ہے کہ موصوف سائوتھ افریقہ کے رہائشی تھے۔ پاکستان کی کابینہ نے اُن کی پُرخلوص پیش کش کو قبول کر لیا۔ترانے کے حوالے سے کمیٹی کے اجلاس میں بہت سی تجاویز زیرِ غور آئیں ۔ اُن میں زیڈ اے بخاری کی تجویز قابلِ ذکر ہے۔ اُن کا خیال تھا کہ سورۃ فاتحہ، ہمارے لئے بہترین قومی ترانہ ثابت ہو سکتی ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ مروجہ رواج سے
انحراف کرتے ہوئے، اِس قومی ترانے (سورۃ فاتحہ) کو سینما گھروں، سماجی ملاپ اور تفریحی مواقع پر استعمال نہ کیا جائے۔ بخاری صاحب کی تجویز کو قبولیت نصیب نہ ہوئی۔ شاید اِس لئے کہ عام طور پر ترانے کی دُھن بجائی جاتی ہے اور قرآن کریم کی مقدس آیات کا ملاپ، سازوں کے ساتھ مناسب نہیں سمجھا گیا۔ ایک اور تجویز کلامِ اقبال کو ترانے کے طور پر استعمال کرنے کے بارے میں تھی،
جسے شرفِ قبولیت حاصل نہ ہوا۔ دستاویزات سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ کلامِ اقبال سے کس نظم کا انتخاب کیا گیا تھا۔ کابینہ کمیٹی کے ریکارڈ سے پتا چلتا ہے کہ مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والوں کی طرف سے اعتراض کیا گیا تھا کہ پاکستان کی 56 فیصد آبادی کی زبان بنگالی ہے۔ قومی ترانے میں بنگالی زبان کو بھی شامل کیا جائے۔ یہ رائے اِس بنیاد پر رد ہوئی کہ پاکستان کی قومی زبان اُردو ہے۔
قومی ترانہ اُردو میں ہی لکھا جائے گا۔عام طور پر کسی ترانے کے بول پہلے لکھے جاتے ہیں اور اُن کے مطابق دُھن ترتیب دی جاتی ہے۔ پاکستان کے قومی ترانے کے حوالے سے موسیقی کی دُھن پہلے ترتیب دی گئی۔ یہ دُھن جناب احمد جی چھاگلہ نے تخلیق کی اور کابینہ کمیٹی نے منظور کر لی۔ وزیرِ اعظم لیاقت علی خان کے دورۂ امریکہ کے موقع پر اِسی دُھن کو قومی ترانے کے طور پر بجایا گیا۔
بدقسمتی کی بات تھی کہ دُھن پر بول لکھنے کا مرحلہ طے ہونے سے پہلے، چھاگلہ صاحب کا انتقال ہو گیا۔اِس دُھن پر بول لکھنے کا مرحلہ بھی دلچسپی سے خالی نہ رہا۔ زیڈ اے بخاری نہ صرف کابینہ کمیٹی کے رُکن تھے بلکہ پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کے سربراہ بھی۔ اگر اِس بات کو ذہن میں رکھیں کہ پاکستان میں ابھی ٹیلی وژن کا ظہور نہیں ہوا تھا تو ریڈیو کی اہمیت کا اندازہ بہتر طور پر ہو سکے گا۔
زیڈ اے بخاری صاحبِ علم تو تھے مگر شاعر نہ تھے۔ سورۃ فاتحہ کو قومی ترانہ بنانے کے لئے اُن کی تجویز منظور نہ ہوئی تو اُنہوں نے بھی چھاگلہ صاحب کی دُھن پر بول لکھے۔ اُن کے علاوہ حکیم احمد شجاع نے بھی طبع آزمائی کی۔ حکیم صاحب لاہور کے رہنے والے تھے۔ گورنمنٹ کالج لاہور اور علی گڑھ یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ تھے۔ 1951ء تک پنجاب کی قانون ساز اسمبلی میں
ڈپٹی سیکرٹری کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ وہ ’’ہزار داستان‘‘ اور ’’نونہال‘‘ کے ایڈیٹر رہے۔ ایک کتاب ’’خوں بہا‘‘ کے مصنف بھی تھے۔ جناب حفیظ جالندھری بھی اِس کمیٹی کے رُکن تھے۔ اِن تینوں حضرات کے لکھے ہوئے ترانے کمیٹی کے زیرِ غور آئے۔یاد رہے کہ قومی ترانے کی دُھن سرکاری طور پر منظور ہو چکی تھی۔ اِس دُھن میں تین مختلف بند تھے۔ اسی لئے زیڈ اے بخاری،
حکیم احمد شجاع اور حفیظ جالندھری نے تینوں بند پر علیحدہ علیحدہ بول لکھے۔ جناب ہاشم رضا اِس کمیٹی کے سیکرٹری تھے۔ اُنہوں نے ’’حکومت‘‘ کی طرف سے ابوالاثر حفیظ جالندھری کو خط لکھ کر تجویز دی کہ پہلا بند زیڈ اے بخاری کے ترانے سے لیا جائے اور آخری دو بند اُن کی کاوش سے شامل ہوں۔جواب میں حفیظ جالندھری نے ایک طویل خط لکھا۔ حفیظ صاحب نے دُھن کی موسیقی سے شاعری کی مطابقت کا حوالہ دیتے ہوئے زیڈ اے بخاری کی تحریر میں شامل الفاظ کا جائزہ لیا۔ اُن کی رائے دُرست تسلیم ہوئی۔ موسیقی اور شاعری کی باہمی ہم آہنگی اور غنائیت کے حوالے سے دلچسپ تجزیہ اُس کتابچے میں شامل ہے جو کابینہ ڈویژن کے نیشنل ڈاکومینٹیشن ونگ نے میری تعیناتی کے دوران جاری کیا۔