اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) انتخابی نتائج میں دھاندلی، روزنامہ جنگ کے رپورٹر احمد نورانی نے تہلکہ خیز انکشافات کر دئیے۔ تفصیلات کے مطابق انتخابات میں دھاندلی کے حوالے اپوزیشن جماعتیں جہاں شور مچا رہی ہیں وہیں میڈیا پر بھی اس حوالے سے چند آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔ اسی حوالے سے روزنامہ جنگ کے معروف رپورٹر احمد نورانی نے تہلکہ خیز انکشاف کرتے ہوئے
اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ مبینہ طور پر آرٹی ایس سسٹم کی ناکامی کے بعد پریذائیڈنگ افسران نے نتائج آر اوز تک پہنچانے تھے اور رات 12بجے کے بعد پریزائیڈنگ افسران ہی غائب ہو گئے تھے اور الیکشن کمیشن کی دسترس میں نہیں تھے اور ان سے کسی قسم کا رابطہ بھی نہیں ہو رہا تھا۔ احمد نورانی کے مطابق نتائج کی منتقلی کے نظام یعنی ریزلٹ ٹرانسمشن سسٹم (آر ٹی ایس) کی ناکامی کے علاوہ، 25؍ جولائی 2018ء کے عام انتخابات کے حوالے سے جو سوال انتہائی پریشان کن ہے وہ یہ ہے کہ وہ کیا بات تھی جس نے لاکھوں پریزائیڈنگ افسران (پی اوز) کو پولنگ ختم ہونے کے بعد 12؍ گھنٹے گزر جانے کے باوجود ریٹرننگ افسران (آر اوز) کے آفس پہنچنے سے روکا۔ ابتدائی تحقیقات اور دستیاب حقائق کو دیکھنے کے بعد یہ وہ سوال ہے جو ابھر کر سامنے آ رہا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ، دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ ہر صوبے میں الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کے ایک عہدیدار کو ایک منٹ میں 30؍ سے 40؍ ہزار پی اوز کو فون کر نا پڑا اور انہیں آر ٹی ایس استعمال کرنے سے روکا گیا، یہ نظام رات 11؍ بجکر 47؍ منٹ تک صحیح کام کر رہا تھا اور اس کے بعد اچانک ہی بند ہوگیا۔ یہ ناممکن ہے۔ آر ٹی ایس کے اچانک بند ہونے کے معاملے میں شاید نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) ذمہ دار نہیں ہے اور اس معاملے میں شاید کوئی سازش ہے جس کی وجہ سے
یہ سسٹم بند ہوگیا۔ اس کیلئے الزامات کی نہیں بلکہ تحقیقات کی ضرورت ہے۔ آر ٹی ایس نظام کے ناکام ہونے کی وجوہات چاہے کچھ بھی ہوں لیکن نتائج کی فراہمی میں بے مثال تاخیر کیلئے صرف اس ناکامی کو ہی بنیادی وجہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ای سی پی حکام کا کہنا ہے کہ پی اوز پوری ایک رات کیلئے غائب ہوگئے اور ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران اور ریٹرننگ افسران کی فون کالز کا جواب نہیں دے رہے تھے۔
لاکھوں پریزائیڈنگ افسران ایک ساتھ آر اوز کی پہنچ سے باہر کیسے جا سکتے ہیں اور یہ فیصلہ کس نے کیا، یہ اہم سوال ہے اور اس کی تحقیقات ہونا چاہئے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ آخر ہوا کیا۔ یہ سمجھنا بھی اہم ہے کہ آر ایم ایس اور آر ٹی ایس ہیں کیا اور یہ کیسے کام کرتے ہیں۔ قومی اسمبلی کے 270؍ اور صوبائی اسمبلیوں کے 571؍ حلقوں میں سے ہر ایک کیلئے آر اوز مقرر کیے گئے تھے،
قومی اسمبلی کے ہر حلقے میں 300؍ پولنگ اسٹیشنز تھے اور ملک بھر میں 85؍ ہزار پولنگ اسٹیشنز تھے۔ پولنگ اور ووٹوں کی گنتی کا عمل مکمل ہونے کے بعد، پریزائیڈنگ افسران کو اپنے اپنے حلقے کا نتیجہ آر او تک لیجانا ہوتا ہے اور اس کے بعد نتائج جمع کرنے اور ان کے اعلان کرنے کا عمل شروع ہوتا ہے۔ آر ایم ایس اور آر ٹی ایس دو علیحدہ نظام ہیں، آر ایم ایس الیکشن کمیشن آف پاکستان جبکہ آر ٹی ایس نادرا نے بنایا تھا۔
آر ایم ایس یعنی ریزلٹ مینجمنٹ سسٹم کو بطور ٹرائل گزشتہ عام انتخابات میں استعمال کیا گیا تھا اور اس کے بعد یہی نظام کامیابی کے ساتھ آنے والے ضمنی انتخابات کے دوران استعمال کیا گیا۔ ملک بھر میں ای سی پی نے یہ نام آر اوز کے دفاتر میں نصب کیا اور اس کیلئے کمیشن کی مدد اقوام متحدہ کے ادارے UNDP نے کی اور اس کیلئے حکومت پاکستان سے کوئی مدد نہیں لی گئی۔ اس نظام کے
تحت ملک بھر میں آر او آفسز میں 849؍ کمپیوٹرز نصب کیے گئے اور ایک ڈیٹا انٹری آپریٹر اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کا ماہر فراہم کیا گیا۔ ان کمپیوٹرز میں ریزلٹ مینجمنٹ سسٹم کا سافٹ ویئر انسٹال کیا گیا۔ جیسے ہی آر او آفس میں پولنگ اسٹیشن سے نتیجہ پہنچنا شروع ہوتا، یہی نتیجہ آر ایم ایس میں شامل کیا جاتا اور اس کے جواب میں آر ایم ایس خود کار نظام کے تحت
مرتب کردہ فارم نمبر 45؍ (ووٹوں کی گنتی کا گوشوارہ) اور فارم نمبر 46؍ (پولنگ اسٹیشن پر بیلٹ پیپرز کی گنتی کا گوشوارہ) پرنٹ کرکے فراہم کرتا۔ اس طرح دیکھیں تو بنیادی بات یہ ہے کہ آر ایم ایس اس وقت کام کرتا ہے جب پریزائیڈنگ افسران نتائج لے کر ریٹرننگ افسران کے پاس پہنچتے ہیں۔ آر ایم ایس کا پولنگ اسٹیشن سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ آر او آفس میں نصب کیا جاتا ہے اور یہی بات آر ٹی ایس اور
آر ایم ایس میں بنیادی فرق بھی ہے۔ آر ٹی ایس کو ہر پولنگ اسٹیشن پر فعال ہونا تھا۔ اگر پی اوز نتائج لے کر آر او آفس نہیں پہنچیں گے تو آر ایم ایس کام نہیں کرے گا اور آر ایم ایس اس بات کو بھی یقینی نہیں بنا سکتا کہ تمام پی اوز بروقت آر او آفس پہنچیں۔ آر ایم ایس اس وقت تک فارم 47؍ کا پرنٹ آئوٹ نہیں دے گا جب تک پی اوز اپنے اپنے پولنگ اسٹیشن کا نتیجہ (فارم 45؍ جس پر پولنگ ایجنٹس،
اے پی او اور پی کے دستخط کے ساتھ) فراہم نہیں کرتے۔ دستیاب حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ 25؍ جولائی کے انتخابات کے بعد تک آر ایم ایس 100؍ فیصد کارگر ثابت ہوا کیونکہ نہ صرف فارم 47؍ (حلقے کا غیر سرکاری مجموعی نتیجہ) کا پرنٹ آئوٹ چند لمحوں میں ہی دستیاب ہو گیا بلکہ ای سی پی کی ویب سائٹ پر بھی جاری ہوگیا کیونکہ پی اوز اپنے اپنے متعلقہ آر اوز کے دفاتر پہنچنے میں کامیاب رہے۔
آر او آفس پر نتائج جمع کیے جانے کے بعد، آر ایم ایس نے خود کار انداز میں بغیر کوئی غلطی کیے فارم 48؍ اور فارم 49؍ پرنٹ کیا، جنہیں تمام کام مکمل ہونے کے بعد ای سی پی کی ویب سائٹ پر بھی جاری کر دیا جائے گا۔ دوسری جانب ریزلٹ ٹرانسمشن سسٹم (آر ٹی ایس) کا سافٹ ویئر الیکشن کمیشن آف پاکستان نے تیار کیا تھا جسے بعد میں نادرا کے سپرد کر دیا گیا۔
نادرا نے یہ سافٹ ویئر سمارٹ فون پر انسٹال کرنے کیلئے ایک ایپلی کیشن بنائی۔ ہر پولنگ اسٹیشن کا نتیجہ تیار ہوتے ہی پریزائیڈنگ افسر کو فارم 45؍ کی تصویر کھینچ کر آر ٹی ایس کے تحت اسے متعلقہ ریٹرننگ افسر اور ای سی پی کے ہیڈکوارٹرز کو بھیجنا تھا اور یہ کام پریزائیڈنگ افسر کے آر او آفس جانے سے پہلے کرنا تھا جہاں اس نتیجے کو آر ایم ایس میں درج کرنا تھا۔
یہ اعداد و شمار (ڈیٹا) ایک مرکزی کمپیوٹر سرور پر جاتا ہے جسے صرف متعلقہ حلقے کا ریٹرننگ افسر یا پھر ای سی پی کے ہیڈکوارٹرز میں ہی دیکھا جا سکتا ہے۔ ای سی پی نے صحافیوں کو سہولت دی تھی کہ وہ کمیشن کے تیار کردہ مانیٹرنگ روم میں آر ٹی ایس کے تحت براہِ راست آنے والے نتائج کو آتا دیکھیں۔ ای سی پی نے نتائج کا ٹیکسٹ سرکاری ٹی وی چینل کو بھی فراہم کیا۔
اس طرح دیکھیں تو آر ٹی ایس کو ملک بھر کے تمام پولنگ اسٹیشنز پر فعال ہونا چاہئے تھا اور براہِ راست نتائج آر او آفس اور ای سی پی ہیڈکوارٹرز کو بھیجنا چاہئے تھا۔ الیکشن کمیشن کے حکام، پولنگ اسٹاف اور کئی پولنگ ایجنٹس کے مطابق، الیکشن دن شام 6؍ بجے جب پولنگ ختم ہوئی تو ملک بھر کے 90؍ فیصد پولنگ اسٹیشنوں پر گنتی کا عمل رات 10؍ بجے تک مکمل ہو چکا تھا۔
پی اوز نے اپنے اپنے متعلقہ آر اوز اور ای سی پی ہیڈکوارٹرز کو نتائج بھیجنا شروع کر دیے جہاں کئی صحافی آر ٹی ایس کے تحت آنے والے براہِ راست نتائج دیکھ رہے تھے۔ اگرچہ گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں تاخیر ہوئی لیکن ملک بھر کے ہزاروں پولنگ اسٹیشنز سے آنے والے نتائج براہِ راست اسکرین پر نظر آ رہے تھے۔ لیکن رات 12؍ بجے سے کچھ ہی منٹ قبل، آر ٹی ایس کے تحت نتائج آنا بند ہوگئے
اور اس کے بعد ایک بھی نتیجہ نظر نہیں آیا۔ چاہے دبائو تھا یا کوئی اور بات جس کی وجہ سے سسٹم بیٹھ گیا، اس کی تحقیقات ہونا چاہئے۔ آر ٹی ایس کی ناکامی کے بعد ای سی پی حکام نے انتظار کیا کہ پریزائیڈنگ افسران آر اوز کے دفاتر پہنچیں تاکہ نتیجے کا اعلان کیا جا سکے۔ لیکن پریزائیڈنگ افسران آر اوز کے دفتر نہیں پہنچے۔ جب ای سی پی حکام نے ڈی آر اوز اور آر اورز سے رابطہ کرنا شروع کیا
تو ان کی اکثریت نے سیکڑوں پی اوز کے اپنے دفاتر پہنچنے کا معاملہ سنبھالنے میں ناکامی کا اظہار کیا کیونکہ پی اوز کی اکثریت کے موبائل فون بند تھے یا پھر وہ فون نہیں اٹھا رہے تھے۔ اسی دوران ای سی پی کو راولپنڈی کے ایک حلقے کا نتیجہ ملنے میں کامیابی ملی اور مکمل طور پر بے بس چیف الیکشن کمشنر نے صبح 4؍ بجے نتیجے کا اعلان کیا۔ پریزائیڈنگ افسران اگلی صبح 10؍ تک متعلقہ آر اوز
کے آفس پہنچنا شروع ہوئے اور ان کی اکثریت نے قانون کی ایک شق کا حوالہ دیتے ہوئے وجہ بتائی کہ انہیں پولنگ اسٹیشن سے آر او آفس تک سیکورٹی حکام کی حفاظت میں پہنچنا تھا اور ایسا صرف اسی وقت پر ممکن ہوا۔ای سی پی کے ڈائریکٹر میڈیا الطاف احمد نے دی نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ای سی پی نے پہلے ہی آر ٹی ایس کی ناکامی کے معاملے کی تحقیقات کا حکم دیدیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ای سی پی کو وجوہات کا علم ہے کہ پریزائیڈنگ افسران آر او آفس دیر سے کیوں پہنچے اور اسلئے اس معاملے پر انکوائری کی ضرورت نہیں۔ پولنگ کا وقت ختم ہونے کے بعد، مختلف پی اوز، دیگر پولنگ اسٹاف اور پولنگ ایجنٹس کے بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ بیلٹ بکسوں کی سیل پولنگ ایجنٹس کی موجودگی میں کھولی گئیں۔ لیکن اس کے بعد پولنگ اسٹیشنوں کی اکثریت
پر پولنگ ایجنٹس کو وہاں سے نکل جانے کیلئے کہا گیا یا پھر کمرے کے ایک کونے میں بیٹھنے کا کہا گیا جہاں سے وہ گنتی کا مشاہدہ نہ کرپائے۔ وہ یہ بھی نہ دیکھ سکے کہ کون سا بیلٹ پیپر مسترد کیا جا رہا ہے۔ پولنگ ایجنٹس کا کہنا ہے کہ ملک بھر سے مسترد کردہ بیلٹ پیپرز کا مشاہدہ کرکے معلوم کیا جائے کہ انہیں ’’مسترد‘‘ بنانے میں ایک ہی حربہ تو استعمال نہیں کیا گیا۔ پیپلز پارٹی،
ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ن کے بیانات کے مطابق، پولنگ اسٹیشنوں کی اکثریت پر پولنگ ایجنٹس یہ نہیں دیکھ پائے کہ جس جگہ گنتی ہو رہی ہے وہاں کیا ہو رہا تھا۔ پولنگ ایجنٹس کی اکثریت نے اسی وجہ سے فارم 45؍ پر دستخط سے انکار کردیا۔ ای سی پی کے ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ 80؍ فیصد فارم 45؍ پر پولنگ ایجنٹس کے دستخط نہیں تھے، پریزا ئیڈ نگ افسران نے بھی وجہ نہیں بتائی
کہ انہوں نے قانون کے تحت فارم 45؍ پر دستخط کیوں نہیں کیے۔ پولنگ ایجنٹس نے باہر نکالے جانے یا کمرے کے کونے میں بٹھائے جانے کی کچھ ویڈیوز ریکارڈ کی ہیں اور وہ انہیں بطور شواہد پیش کر سکتے ہیں۔ اگرچہ اب تک پریزائیڈنگ افسران تصدیق کرتے ہیں کہ پولنگ ایجنٹس کو گنتی کے عمل سے دور رکھا گیا لیکن اس کے باوجود ویڈیو شواہد سچ سامنے لانے کے معاملے میں زیادہ طاقتور ثابت ہو سکتے ہیں۔
تمام پولنگ اسٹاف اور سیکورٹی حکام کے پاس کمیونیکیشن ڈیوائس تھی اور وہ باہر کی دنیا سے رابطہ کر سکتے تھے لیکن پولنگ ایجنٹس اندر کا حال باہر سنا سکتے تھے اور نہ ہی اپنے امیدوار سے ان مسائل کا ذکر کر سکتے تھے جن کا سامنا انہیں پولنگ اسٹیشن کے اندر تھا۔ اگر ای سی پی حکام نے ان پر اور ووٹروں پر یہ پابندی نہ لگائی ہوتی تو الیکشن کی شفافیت اور ساکھ پر اس طرح انگلیاں نہ اٹھتیں۔
مختلف مقامات سے مہر لگے بیلٹ پیپرز برآمد ہونے کے واقعات اور شواہد سامنے آنے کے بعد صور تحا ل واضح ہوتی جا رہی ہے اور ای سی پی ہیرا پھیری اور گڑ بڑ کی بنیادی تحقیقات کیلئے کچھ بھی نہیں کر رہا۔ ای سی پی کے ترجمان ندیم قاسم موقف کیلئے دستیاب نہیں تھے حالانکہ ان سے رابطے کی متعدد کوششیں بھی کی گئیں تاہم انہوں نے میڈیا پر واضح کیا کہ آر ٹی ایس کے تحت فارم 45؍ بھیجنے
کے بعد پریزائیڈنگ افسران کیلئے لازم تھا کہ وہ سیکورٹی حکام کی حفاظت میں بذات خود فارم 45؍ لے کر آر او آفس پہنچیں۔ قاسم نے میڈیا کو بتایا کہ لیکن آر ٹی ایس کی ناکامی کے بعد، پریزائیڈنگ افسران بیک وقت آر او آفس پہنچنا شروع ہوگئے جس کی وجہ سے ہر پولنگ اسٹیشن سے آنے والے نتیجے کا سسٹم میں اندراج کرنے میں تاخیر ہوئی۔ قاسم نے میڈیا کو یہ بھی بتایا کہ ای سی پی اس معاملے میں ہر طرح کی انکوائری کا خیر مقدم کرے گا اور اس معاملے کیلئے فیکٹ فائنڈنگ کی ضرورت ہے تاکہ تنازع ختم ہو سکے۔