لاہور(نیوز ڈیسک ) سپریم کورٹ نے پنجاب کی 56 کمپنیز میں تین لاکھ سے زائد تنخواہ لینے والے تمام افسران کو (آج) اتوار کو طلب کر تے ہوئے اپنا موقف پیش کرنے کا حکم دیدیا ، چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ قومی خزانے کی بندر بانٹ کی اجازت نہیں دے سکتے، اسپتالوں میں مریضوں کے لیے دوائیاں نہیں ہیں اور افسران عیاشیاں کر رہے ہیں۔ ہفتہ کو
سپریم کورٹ میں پنجاب کی 56 کمپنیز سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی۔ ڈی جی نیب لاہور اور چیف سیکرٹری پنجاب عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔ پنجاب حکومت نے جواب جمع کرایا جس میں کہا گیا کہ 346 سرکاری افسران کو 56 کمپنیز میں بھیجا گیا، جن کی فہرست نیب کو فراہم کردی ہے۔سپریم کورٹ نے ان تمام افسران کو نوٹس جاری کرتے ہوئے (آج) اتوار کو طلب کرلیا اور اپنا موقف پیش کرنے کا حکم دیا۔ چیف جسٹس نے سرکاری شعبے سے کمپنیز میں جانے والے تمام چیف ایگزیکٹیو افسران کی فہرست بھی فوری طور پر پیش کرنے کا حکم دیا۔جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ سرکاری افسر کے طور پر کیپٹن عثمان پنجاب حکومت سے ایک لاکھ چالیس ہزار روپے تنخواہ لے رہا تھا، لیکن کمپنی میں جا کر 14 لاکھ روپے تنخواہ لے رہا ہے، ہم ان افسران کو دیے جانے والے سارے پیسے واپس لے کر ڈیم فنڈ میں جمع کرائیں گے، یہ عوام کے پیسے ہیں جن کی بندر بانٹ ی اجازت نہیں دے سکتے، اسپتالوں میں مریضوں کے لیے دوائیاں نہیں ہیں اور افسران عیاشیاں کر رہے ہیں۔چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہاکہ (آج) اتوار کو تمام افسران سپریم کورٹ میں پیش ہوں۔ اپنا موقف دینا چاہتے ہیں تو آج تک دیدیں۔ پیچیدہ پرفارمہ بنانے پر چیف جسٹس ڈی جی نیب پر برہم ہو گئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ڈی جی صاحب آپ معاملے کو پیچیدہ کیوں کر رہے ہیں۔