اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)پاکستان کے سینئر کالم نگار و تجزیہ کار حسن نثار اپنے آج کے کالم میں لکھتے ہیں کہ رب نے چاہا تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ پارٹی تو ابھی شروع بھی نہیں ہوئی۔ 25جولائی کے بعد شروع ہوگی اورآپ کو میرا وہ کالم یاد آجائے گا جس میں عرض کیا تھا ’’آج کی رات نہ سونا یارو۔ آج ہم 7واں در کھولیں گے‘‘۔ پارٹی شروع ہوگی تو بھلا نیند کس کافر کو آئے گی؟
فی الحال تین چار باتوں کو اچھی طرح مکس کر کے دیکھیں۔ سب سے پہلے سنیں عمران کیا کہہ رہا ہے؟ ’’سپریم کورٹ اور فوج مضبوط ہوگی تو پاکستان طاقت ور ہوگا۔پاکستان کے خلاف عالمی سازش ہورہی ہے۔ ہمارا مقابلہ عالمی مخلوق سے ہے‘‘ عمران کے اس چشم کشا بیان کے ساتھ ذرا ان جج صاحب کی تقریر یاد فرمائیں جس پر پاک فوج کے ترجمان نے تحقیقات اور کارروائی کامطالبہ کیا تو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عزت مآب میاں ثاقب نثار نے ریکارڈ طلب کرتے ہوئے کہا ’’سخت ایکشن ہوگا‘‘پاکستان کو صحیح سمت کی طرف مڑتے دیکھ کر پاکستان دشمن قوتیں اور ان کے ایجنٹس اپنا توازن کھوئے دے رہے ہیں۔ بے بنیاد، لغو ، بوگس پروپیگنڈا عروج پر ہے اور یہی عوام کا امتحان بھی ہے۔کیسی عیاری سے عوام کو ایکسپلائٹ کرنے کی بھونڈی ناکام کوششیں جاری ہیں۔ وہ جس کا اعلان تھا کہ انگلستان کیا میری تو پاکستان میں کوئی جائیداد نہیں۔ لمبی چوڑی جائیدادوں کا اعتراف کر کے ان کی بیٹی بننے ہونے کی دعویدار ہے جنہیں دو وقت کی روٹی نصیب نہیں۔ ان کی بہن بننے چلی ہے جو جہیز کے بغیر بوڑھی ہو رہی ہیں، جس کے ’’بھائی‘‘ بھوک ننگ بے روزگاری کے جہنم سے گزر رہے ہیں۔واہ لوگو واہ……دختر دروغ اقتدار میں فروغ چاہتی ہے اور شہنشاہ جذبات، سیلف میڈ نظریاتی اور ’’اوور نائیٹ‘‘ انقلابی کو ایک رات اس زمین پرسونا برداشت نہیں ہورہا
جس پر تین بار حکومت کی۔ کیسے بھول گئے ان لاتعداد ہم وطنوں کوجو ریلوے اسٹیشن لاہور سے چوبرجی تک سخت سردی میں بینچوں، ٹھنڈے فرشوں زمینوں پر ٹھٹھر ٹھٹھر کے راتیں گزارتے اور دن میں مزدوریاں ڈھونڈتے ہیں۔ یہ کس قسم کی بیٹیاں، بہنیں اور بھائی ہیں جن کے ’’بائیس کروڑ‘‘ بھائیوں، بہنوں، بیٹوں، بیٹیوں کیلئے زندگی عذاب ہے۔ واقعی ان کے ہاں دھوکے اور دروغ گوئی کی کوئی حد نہیں۔
’’ہر ماں کا بیٹا‘‘ ہونے کا کلیم اور ہر ماں عسرت زدہ۔’’ہر بہن کا بھائی‘‘ ہونے کا کلیم اور ہر بھائی بے روزگار جبکہ اپنے اصلی بیٹے بھائی مفرور اور محفوظ، پانامے اور ایون فیلڈ ہی ختم نہیں ہورہے۔رہ گئے، اندھیرے، تو وہ صرف تقریروں میں ختم ہوئے۔اور تم نے تو پلانٹس کے مینوئیل تک تبدیل کردیئے۔ ایک لیٹر ایندھن کو کئی لیٹرز میں تبدیل کردیا۔ باقی بچا امن و امان تو قربان ہوئے
اس ملک کے اصل محافظ اور مجاہد، تمہارے سگے تو ہائیڈ پارک میں پارک ہو چکے اور پاکستانی ہونے سے بھی انکاری تو یہ دھمکی اپنے تک رکھو کہ ’’دھاندلی ہوئی تو عوامی سیلاب کو نہیں روک سکوں گا‘‘ ابھی چند روز پہلے تو لاہور میں یہ ’’سوکھا سیلاب‘‘ سب دیکھ چکے۔یہ درست کہ گزشتہ 35سال میں آپ نے مفاد پرستوں، دیہاڑی داروں اور طفیلیوں کے جتھے ضروربنا لئے ہیں۔
چھوٹی بڑی سیٹوں کے امیدواروں کی بقا بھی آپ کی قبا سے وابستہ ہے، پھر ان صوبائی قومی امیدواروں کے نیاز مندوں کی نفری بھی حقیقت لیکن یہ سب آٹے میں نمک برابر بھی نہیں اور یوں بھی جب قمیض پھٹنے لگتی ہے تو نیاز بٹنے لگتی ہے جس میں نیاز مند پیش پیش ہوتے ہیں۔رب نے چاہا تو سب ٹھیک ہوگا۔سعودی ماڈل نہ سہی تو چینی ماڈل ہی کیوں نہ دیکھ لیا جائے کہ وقت کم اور
مقابلہ سخت کہ منشیات فروشوں کو بھی انجام تک پہنچانے کے پہلے مرحلہ تک پہنچنے میں سات سال لگتے ہیں۔ 70سال گنوانے کے بعد شاید مزید وقت گنوانا افورڈ ہی نہیں کیا جاسکتا۔’’نظام انصاف‘‘ کا خون ہی نہیں، دل گردے بھی تبدیل کرنا ہوں گے، شاید جگر کی پیوند کاری بھی ضروری ہے۔ نسلیں ختم ہو جاتی ہیں، تاریخوں پر تاریخیں ختم ہونے کا نام نہیں لیتیں تو تاریخ معاف نہیں کرے گی۔
ہر فیصلہ ’’ٹائم سپیسفک‘‘ ہونا چاہئے یعنی مخصوص اور محدود مدت میں فیصلہ یقینی ہو۔لیول آف اپیلز…… اپیل در اپیل کی بھی کوئی حد تو ہونی چاہئے یعنیایک ’’اپیل‘‘ ہی کافی ہے۔باقی ’’کیس‘‘ اضافی ہے۔بھاڑ میں جائے التوا در التوا کی شیطانی آنت۔ کیا دیگر مہذب ملکوں میں اسی طرح Adjurnmentsکا ایسا ہی رواج ہے؟سزائوں پر سرعت سے عمل درآمد میں کون سی رکاوٹیں ہیں؟
وکیل کی حاضری ہر قیمت پر لازمی کیوں نہیں؟اور کیا ایک میڈیکل بورڈ کافی نہیں۔معمولی مجرم بھگتنے جاتے ہیں، غیر معمولی جرائم کے مرتکب لوگوں کو جیل جاتے ہی کبھی کمر اور کبھی دل میں ’’درد جگر‘‘ شروع ہوجاتا ہے تو کیا اس کا ’’علاج‘‘ ناممکن ہے؟اوپر سے نیچے تک ٹھنڈ پڑ جائے گی۔لا (Law)میراموضوع نہیں۔ میں نے تو ’’لا آف کامن سینس‘‘ کے تحت چند معروضات پیش کی ہیں۔الحمدللہ ہمارے پاس درد دل رکھنے والے جیوڈیشل جینئیسز کی کمی نہیں توپھر کمی کس شے کی ہے؟عمران نے سچ کہا……طاقت ور فوج، مضبوط ترین عدلیہ، آزاد باایمان ایف بی آر، ’’نیب‘‘ جیسے موثر ادارے تو دیکھو بیڑا پار کیسے ہوتا ہے، غیب سے کیسی کیسی مدد آتی ہے۔