اسلام آباد (نیوز ڈیسک) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاعی پیداوار کو بتایا گیا ہے کہ دفاعی پیداواری ادارے نہ صرف ملک کی مسلح افواج کی ضروریات پوری کر رہے ہیں بلکہ دفاعی مصنوعات درآمد بھی کر رہے ہیں ،ہیوی انڈسٹری ٹیکسلا نے حال ہی میں 16 الخالد، 36 ٹی 80 یو ڈی ٹینکس ،165 بکتر بند گاڑیاں تیار کی ہیں جبکہ ایروناٹیکل کمپلیکس کامرہ سالانہ 24 سپر مشاق طیارے تیار کر رہا ہے،
مختلف ممالک کو 90 سپر مشاق طیارے فراہم کئے جا چکے ہیں ، ملک میں 14 جے ایف 17 تھنڈر بنا کر قومی خزانے کیلئے 49 کروڑ ڈالر بچائے گئے ہیں ، میراج ریبلڈ فیکٹری نے ملکی خزانے کو 21 کروڑ 70 لاکھ ڈالر کا فائدہ پہنچایا،پاکستان آرڈیننس نے گزشتہ 5 سال میں 97 فیصد اہداف حاصل کئے ہیں۔پیر کو لیفٹیننٹ جنرل(ر ) عبدالقیوم کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاعی پیداوار کا اجلاس پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا ۔اجلاس میں سیکرٹری دفاعی پیداوارا خرابی صحت کے باعث اجلاس میں شریک نہیں ہوسکے۔قائم مقام سیکرٹری دفاعی پیداوار میجر جنرل علی عامر نے وزارت دفاعی پیداوار کی نمائندگی کی ۔چیئرمین کمیٹی لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم نے کہا کہ بھارت 4.2 ارب ڈالر کیساتھ بڑا دفاعی درآمد کنندہ ہے، پاکستان دفاعی درآمدات کے لحاظ سے 0.65 ارب ڈالر کیساتھ 12 ویں نمبر پر ہے۔کمیٹی کے ممبر نعمان وزیر خٹک نے کہا کہ تمام دفاعی پیداواری اداروں کو آزاد اور خودمختار ہونا چاہیے،انہوں نے سوال کیا کہ کیا پاک فضائیہ کو بھی بین الاقوامی قیمت پر طیارے فراہم کرتے ہیں۔ایروناٹیکل کمپلیکس کامرہ کے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ بین الاقوامی قیمت پر طیارے فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں، چودہ سپر مشاق جہاز تیار کرچکے، ایک جہاز کی قیمت 7.547 ملین ڈالر ہے۔ جہازوں اور ان کے پرزہ جات کی اوور ہالنگ سے ہم نے 217.14 ملین ڈالر کی بچت کی ہے،
اب تک 11 میراج طیاروں اور ان کے پرزہ جات کی اوور ہالنگ کر چکے ہیں جس سے 135.47 ملین ڈالر کی بچت ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ مسلح افواج کی ڈیمانڈ مسلسل بڑھ رہی ہے، برآمدی آرڈرز بھی بڑھے ہیں۔کمیٹی کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل ( ر)عبدالقیوم نے کہا کہ کمپنیوں کا منافع لازمی، درآمدات پر انحصار کم، مقامی پیداوار بڑھانا ہو گی۔ پی او ایف حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ پاکستان آرڈیننس فیکٹری نے گزشتہ 5 سال میں 97 فیصد اہداف حاصل کیے ہیں ۔
انہوں نے بتایا کہ پی او ایف میں 14 فیکٹریاں ہیں، مسلح افواج کی ضروریات پوری کرنا ترجیح ہے۔ انہوں نے بتایا کہ امریکہ کو سالانہ 5 ہزار مختلف ہتھیار فروخت کررہے ہیں، امریکہ میں ہونیوالی ہتھیاروں کی نمائش میں 3 سال سے شرکت کررہے ہیں،امریکہ کی مارکیٹ تک رسائی بھی ہے اور مصنوعات کی فروخت کو وسعت بھی دے رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پی او ایف کے ذیلی اداروں نے گذشتہ سال 2 ارب 14 کروڑ سے زائد ٹیکسوں کی مد میں ادا کیے،
پی او ایف کی مجموعی طورپر پیداوار سے 9 ارب 10 کروڑ سے زائد کمرشل آمدن ہوئی، مجموعی پیداوار سے 3 ارب 93 کروڑ کے ٹیکسز ادا کئے گئے،وزارت دفاعی پیداوار کی امریکہ، ترکی، امارات سمیت 24 ملکوں برآمدات 196 ملیں ڈالر رہیں۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ پی او ایف نے 2017-18 میں 9 ارب روپے سے زائد کی سیلز کیں اور ترقیاتی بجٹ سے 148 معاہدے کیے گئے، دس سالوں میں دفاعی خریداریوں کی مد میں آٹھ ارب کی بچت کی۔کمیٹی کے چیئرمین نے ہدایت دی کہ وزارت کے ذیلی اداروں میں تحقیق و ترویج کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ فاٹا کے انضمام کے بعد وہاں اسلحہ سازی کو قومی صنعت کا درجہ دینے کی ضرورت ہے، اس اقدام سے شدت پسندی اور دہشت گردی کے رجحان کی حوصلہ شکنی ہوگی۔ملٹری وہیکل ریسرچ کے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ ملٹری وہیکل ریسرچ محکمے کی کوششوں سے 426 ملین کی درآمدات کی بجائے مقامی پیداوار سے 249 ملین کی بچت ہوئی، اگلے پانچ سال کیلئے 200 سے 290 ملین روپے سالانہ کی بچت کا ہدف رکھا ہے، ڈیفنس خریداریوں کی مد میں وزارت کے اقدامات سے ترقیاتی مدوں میں 8 ارب 83 کروڑ اور سروسز کی مد میں 9 ارب 39 کروڑ بچت ہوئی۔
نیشنل ریڈیو ٹیلی کمیونیکیشن کے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ نیشنل ریڈیو ٹیلی کمیونیکشن کے تحت انتخابات 2018 کی نگرانی بھی ہوگی۔: کمیٹی نے دفاعی پیداواری شعبے کی ترقی، ترویج، خود مختاری اور برآمدات میں اضافہ کیلئے سفارشات پیش کرتے ہوئے کہا کہ اداروں بورڈ کے اراکین کو اپنے فیصلوں میں آزادی ہونی چاہیے،اداروں کو مالی طور پر خود مختار ہونا چاہیے، تحقیق و ترقی کے شعبے آزاد حیثیت میں کام کریں،مشین ٹول فیکٹری کو وزارت دفاعی پیداوار کا حصہ ہونا چاہیے، پریسیڑن انجینئرنگ کے ادارے پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے، وزارت دفاعی پیداواری صلاحیت کی تفصیلات میڈیا میں لانی ہوں گی،گوادر شپ یارڈ پر جلد از جلد عملدرآمد یقینی بنایا جائے،وزارت دفاعی پیداوار کا اپنا بجٹ اور زیادہ مالی وسائل فراہم کی جائیں۔