اسلام آباد (نیوز ڈیسک) اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق وزیراعظم محمد نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کی ایون فیلڈ ریفرنس میں احتساب عدالت کی جانب سے دی جانیوالی سزا کیخلاف اپیلیں (آج) منگل کو سماعت کیلئے مقرر کردی ہیں جن میں احتساب عدالت کا فیصلہ کالعدم قرار دینے اور اپیل پر فیصلہ آنے تک سزا معطل کر کے تمام سزا یافتہ افراد کو ضمانت پر رہا کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔
تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق وزیراعظم محمد نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کی ایون فیلڈ ریفرنس میں احتساب عدالت کی جانب سے دی جانیوالی سزا کیخلاف اپیلیں (آج) منگل کو سماعت کیلئے مقرر کردی ہیں ۔اپیلوں کی سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل 2 رکنی بینچ کریگا۔ ہائیکورٹ میں دائر اپیلوں میں احتساب عدالت کا فیصلہ کالعدم قرار دینے اور اپیل پر فیصلہ آنے تک سزا معطل کر کے مجرموں کو ضمانت پر رہا کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔اپیلوں میں کہا گیا ہے کہ احتساب عدالت نے انصاف کے تقاضے پورے کئے بغیر سزا سنائی ،اسلام آباد ہائیکورٹ سے استدعا کی گئی ہے کہ احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کا فیصلہ کالعدم قرار دے کر بری کیا جائے۔اپیلوں میں کہا گیا ہے کہ ضمنی ریفرنس اور عبوری ریفرنس کے الزامات میں تضاد تھا، صفائی کے بیان میں بتا دیا تھا کہ استغاثہ الزام ثابت کرنے میں ناکام رہا اس لئے شک کا فائدہ ملزم کو ہوتا ہے اس لئے سزا سنا کر احتساب عدالت کے جج قواعد کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے۔اپیلوں میں کہا گیا کہ واجد ضیاء کے بیان کی بنیاد پر سزا سنائی گئی جو تفتیشی افسر تھے لیکن انہیں بہت سے حقائق کا علم ہی نہیں تھا، واجد ضیاء کا بیان ناقابل قبول اور غیر متعلقہ شہادت ہے، واجد ضیاء ایسی دستاویز نہیں پیش کرسکتے جس کے وہ گواہ نہ ہوں اور ان کی گواہی محض سنی سنائی باتوں پر مبنی ہے۔
اپیلوں میں مزید کہا گیا کہ نواز شریف نے کبھی ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کی ملکیت کا دعویٰ نہیں کیا اور استغاثہ نواز شریف کے اپارٹمنٹس کے مالک ہونے کے ثبوت پیش نہیں کرسکا جب کہ استغاثہ نے بھی تسلیم کیا کہ نواز شریف کے فلیٹس کے مالک ہونے کے کوئی ثبوت نہیں۔اپیل کے مطابق کرپشن اور بدعنوانی سے متعلق نیب آرڈیننس کی سیکشن 9 اے 5 کے تحت الزام ثابت نہیں ہوا، ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کی قیمت خرید بتائے بغیر سزا دینے کا جواز نہیں تھا جب کہ ضمنی ریفرنس میں نیا الزام لگایا گیا اور نواز شریف کو اسی ریفرنس کی بنیاد پر سزا سنائی گئی۔
اپیلوں میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ ضمنی ریفرنس میں نواز شریف پر دوبارہ فرد جرم عائد کی جانی چاہیے تھی لیکن ایسا کیے بغیر سزا سنائی گئی اور احتساب عدالت نے شواہد کے بغیر فیصلہ سنایا۔اپیل میں استدعا کی گئی ہے نواز شریف کو سزا دینے کا کوئی قانونی جواز نہ تھا اس لئے ان کے خلاف غیر قانونی فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے۔اپیلوں کے مطابق واجد ضیاء نے تسلیم کیا کہ بچوں کا نواز شریف کے زیر کفالت ہونے کا ثبوت نہیں ملا اور بچوں کو کاروبار چلانے کیلئے نواز شریف نے پیسہ دیا اس کا بھی ثبوت نہیں ملا جبکہ عدالت نے واجد ضیاء کے اس بیان کو مکمل نظر انداز کیا
اور غلط مفروضے کی بنیاد پر سزا سنائی ،احتساب عدالت کا فیصلہ حقائق اور شواہد پر مبنی نہیں ہے۔اپیلوں کے مطابق جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء نے خود تسلیم کیا کہ ایم ایل اے کا جواب نہیں آیا اس کے باوجود الزام لگانا بدنیتی ہے جبکہ رابرٹ ریڈلے نے تسلیم کیا کہ اس نے خود کیلبری فونٹ ڈاؤن لوڈ کیا اور انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ وہ کمپیوٹر گیک نہیں ہے۔اپیلوں کے متن کے مطابق واجد ضیاء نے کہا کہ انہیں نہیں پتا 7 جولائی کو بی وی آئی کا خط جے آئی ٹی رپورٹ میں کس نے کب لگایا۔کہا گیا ہے کہ موزیک فونسیکا کے خطوط پوری سماعت کے دوران متنازعہ رہے،
استغاثہ کی ذمہ داری تھی کہ خطوط کی متن کی تصدیق کرتا تاہم وہ اس میں ناکام رہا، بغیر تصدیق کے مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر پر معاونت کا الزام لگانا سمجھ سے بالاتر ہے۔اپیلوں میں کہا گیا کہ معلوم ذرائع کون سے ہیں استغاثہ یہ ثابت کرنے میں بھی ناکام رہا جبکہ استغاثہ نواز شریف اور دیگر کیخلاف اپنا الزام ثابت کرنے میں ناکام رہا اس لئے دفاع میں گواہ پیش کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔اپیلوں میں کہا گیا کہ احتساب عدالت کو فیصلہ ایک ہفتے تک مؤخر کرنے کی درخواست کی تھی لیکن احتساب عدالت نے درخواست مسترد کر کے غیر حاضری میں فیصلہ سنایا اور فیصلے میں نواز شریف و دیگر کو کرپشن کے الزامات سے بری کیا گیا لیکن عدالت نے مجرم قرار دے کر سزائیں بھی سنا دیں۔