اسلام آباد(آئی این پی) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی میںچائلڈ پورنوگرافی میں ملوث افراد کو کم از کم سزائے موت کی سز دینے کی تجویز پیش کر دی گئی۔وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے )نے کمیٹی کو ملک میں چائلڈ پورنوگرافی پر ان کیمرہ بریفنگ دی۔ کمیٹی چیئرپرسن سینیٹر روبینہ خالد نے ان کیمرا بریفنگ کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ چائلڈ پورنوگرافی کے
حوالے سے بین الاقوامی سطح پر نیٹ ورکس کام کر رہے ہیں،خدا نخواستہ ایسا نہ ہو کہ دہشت گردی کے بعد چائلڈ پورنوگرافی پاکستان کیلئے اگلی بدنامی نہ بن جائے۔ایف آئی اے کو اس معالے پر انٹرپول لے ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا تا کہ بین الاقوامی کے خلاف اقدامات اٹھائے جا سکیں۔کمیٹی رکن و سابق وزیر داخلہ سینیٹررحمان ملک نے کہا کہ چائلڈ پورنوگرافی کی سزا قانون کے اندر کم متعین کی گئی ہے، کمیٹی میں تجویز دی ہے کہ چائلڈ پورنوگرافی کی کم از کم سزا سزائے موت ہونی چاہیے۔جمعرات کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کا اجلاس چیئرپرسن سینیٹر روبینہ خالد کی زیر صدارت پارلیمنٹ لاجز اسلام آباد میں ہوا۔ اجلاس میں سینیٹر رخسانہ زبیری،سینیٹر غوث محمد خان نیازی، سینیٹر رحمان ملک، ایڈیشنل سیکریٹری وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی، جوائنٹ سیکریٹری وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجیِ ڈائریکٹر ایف آئی ایسائبر کرائمز ونگ اور وزارت قانون و انصاف کے حکام نے شرکت کی۔ وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ کمیٹی کی ہدایت پر ٹیلیفون انڈسٹریز آف پاکستان(ٹی آئی پی) کے ادارے کے پنشنر کو پنشن ادا کر دی گئی ہے۔ان پنشنر کو پنشن کی مد میں 84.952ملین روپے کی ادائیگی کی گئی ہے۔ٹی آئی پی کی بورڈ آف گورنرز اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ وزارت خزانہ کی بجائے سیکریٹری آئی ٹی ان معاملات کا فیصلہ کرے گی۔
سینیٹر رحمان ملک نے کہا کہ ادارے کی نجکاری کے وقت ٹی آئی پی وزارت ٹیلی کام کے ما تحت تھا ۔ ٹی آئی پی کے پاس جو زمین ہے حکومت اس پر اپنی ملکیت جتاتی ہے لیکن ٹی آئی پی کے ملازمین کو کوئی اون نہیں کرتا۔سیکریٹری وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کی کمیٹی اجلاس میں عدم شرکت پر رحمان ملک نے ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سیکریٹریز نے کمیٹیوں سے غیر حاضری کا معمول بنا لیا ہے۔
ہم سینیٹ کو بے توقیر نہیں ہونے دیں گے۔ الیکٹرانک کرائمز بل بنایا گیا تو کیا اس پر ایف آئی اے کو اعتماد میں لیا گیا؟ایف آئی اے کو ہم نے بڑی ذمی داری سونپی ہے جس کیلئے ان کو 1.3ارب روپے بھی جاری کیے گیے ہیں جس سے وہ ادارے میں نئی بھرتیاں اور جدید آلات خریدیں گے۔وزارت قانون نے ایف آی اے کے ساتھ مل کر جو قوانین بنائے ہیں ان کی کاپی کمیٹی کو بھی فراہم نہیں کی گئی۔
ہم یہاں آپ کی کہانیاں نہیں سننے آئی۔ سیکریٹری قانون کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنا دی جائے جو ان معاملات کو دیکھے۔بین الاقوامی قوانین کی مانیٹرنک کیلئے وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی میں آئی سی ایچ کا قیام عمل میں لایا گیا تھا جس میں ہم نے 400ارب کا نقصان برداشت کیا تھا۔ آئی سی ایچ کا قیام کس قانون کے تحت عمل میں لایا گیا تھا۔ اس معاملے کا تفصیلی آڈٹ کرایا جائے تاکہ حقائق کا پتہ چل سکے۔
آج کے دور میں واٹس ایپ اور دیکر ذرائع ہونے کے باوجود ٹیلیفون ایک اہم ضرورت ہے۔کمیٹی چیئر پرسن سینیٹر روبینہ خالد نے کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم پر موبائل فون پر ٹیکس مکمل طور پر ختم کر دیا گیا ہے۔ اس حواے سے کافی عرصہ پہلء کمیٹی کو بھی بریفنگ دی گئی تھی لیکن سفارشات پر عملدرآمد نہیں کیا گیا تھا۔ سینیٹر رحمان ملک نے بتایا کہ اس وقت موبائل پر 3قسم کے ٹیکس وصول کیے جا رہے تھے۔
اس پر سینیٹر روبینہ خالد نے کہا کہ موبائل فون پر ٹیکس مکمل طور پر ختم کر دینا بھی تشویش ناک ہے، اس طرح حکومت کے ریونیو میںکمی آئے گی۔ ٹیکس ضرور لگنا چاہیے لیکن قانون کے مطابق جتنا عوام آسانی سے دے سکیں۔اس حوالے سے کمیٹی نے اگلی میٹنگ میں ایف بی آر حکام سے تفصیلی وضاحت طلب کر لی۔ سینیٹر رحمان ملک نے کہا کہ ملک کے اندر سائبر کرائمز کا معاملہ تشویش ناک ہے۔
چائنہ سے ہزاروں کی تعداد میں موبائل فونز کنٹینرز بھر پر غیر قانونی طور پر پاکستان لائے جاتے ہیں جن پر جعلی ای ایم ای آئی نمبر درج ہوتے ہیں۔ ای ایم ای آئی نمبر کسی بھی موبائل کا ڈی این اے ہوتا ہے اور کسی مجرم کی تلاش میں ای ایم ای آئی نمبر ٹریس کیا جانا بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ایک ای ایم ای آئی نمبر پر 200فون استعمال ہو رہے ہیں
تو ایف آئی اے اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو سائبر کرائم کی راک تھام میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔اس حوالے سے تفصیلی قوانین بنانا ہوں گے۔کمیٹی اجلاس میں ڈائرکٹر ایف آئی اے سائبر کرایمز نے ملک کے اندر چائلڈ پورنوگرافی کے بڑھتے ہوئے واقعات پر کمیٹی کو ان کیمرا بریفنگ دی گئی۔ ان کیمرا بریفنگ کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر غوث محمدخان نیازی نے کہا کہ
چائلڈ پورنوگرافی کے حوالے سے ڈائرکٹر ایف آئی اے سائبر کرایمز نے کمیٹی کو بریفنگ دی ہے۔ ایف آئی نے چائلڈ پورنوگرافی میں ملوث کچھ افراد کو حراست میں لیا ہے اور کچھ کو سزائیں بھی دی گئی ہیں لیکن ابھی بھی چائلڈ پورنوگرافی کے حوالے سے پاکستان میں بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔ایف آئی اے حکام نے بتایا کہ ان کو اسٹاف کی شدید کمی کا سمنا کرنا پڑ رہا ہے۔
ان کیمرا بریفنگ کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سینیٹررحمان ملک نے کہا کہ ڈائرکٹر ایف آئی اے سائبر کرایمز اور چائلڈ پورنو گرافی کے حوالے سے کمیٹی کو بریفنگ دی ۔ میں نے تو یہ تجویز دی ہے کہ چائلڈ پورنوگرافی کی سزا قانون کے اندر کم متعین کی گئی ہے۔ چائلڈ پورنوگرافی کی کم از کم سزا سزائے موت ہونی چاہیے۔ سینیٹ کی سب کمیٹی برائے داخلہ میں بتایا گیا تھا
کہ ملک کے 6بڑے سیاستدانوں کے زندگی کو شدید خطرات لاحق ہیں جس حوالے سے خفیہ انجنسیوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو الرٹ بھی جاری کیے گئے ہیں۔ اس پر میں نے وزارت داخلہ سے تفصیلی رپورٹ طلب کی ہیکہ بتایا جائے کہ وہ6سیاستدان کون ہیں اور اگر ان کی زندگی کو اتنے شدید خطرات لاحق ہیں دہشتکردوں کی جانب سے تو ان کی سیکیورٹی کیلئے کیا اقدامات کیے گئے ہیں۔
اگر دہشتگرد کسی قسم کے منصوبے بنا رہے ہیں تو ان کو روکنے کیلئے کیا اقدامات کیے گئے ہیں۔الیکشن میں کھڑے امیدوار، ووٹر اور پولنگ سٹیشن کی تحفظ میرا ون پوائنٹ ایجنڈا ہے جس کے حوالے سے اقدامات کیے جانے کی ضرورت ہے۔ سیکریٹری الیکشن کمیشن نے بھی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کو بتایا تھا کہ ان کے پاس معلومات ہیں کہ کچھ شر پسند عناصر انتخابات میں رکاوٹ ڈال سکتے ہیں۔
اگردہشتگردی کا ایک بھی واقعہ الیکشن سے پہلے ہو گیا تو الیکشن پر بہت برا اثر پڑے گا۔ کمیٹی چیئرمیں سینیٹر روبینہ خالد نے ان کیمرا بریفنگ کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ چائلڈ پورنوگرافی کے حوالے سے بین الاقوامی سطح پر نیٹ ورکس کام کر رہے ہیں۔خدا نخواستہ جس طرح ہم ساری دنیا میں دہشتگردی کی وجہ سے بدنام ہوئے ہیں ایسا نہ ہو کہ چائلڈ پورنوگرافی پاکستان کیلئے اگلی بدنامی بن جائے۔
ہم نے اپنے بچوں کا مستقبل بچانا ہے۔ اس لعنت سے سارا معاشرہ تباہ ہو سکتا ہے۔ اس معاملے پر اقدامات اٹھانے کے حوالے س ہم پہلے سے بہت لیٹ ہو چکے ہیں۔چائلڈ پورنوگرافی پر کام کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ ہم اس لعنت پر قابو پا سکیں ۔ایف آئی اے کو اس معالے پر انٹرپول لے ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا تا کہ بین الاقوامی کے خلاف اقدامات اٹھائے جا سکیں ۔(ع خ)