بدھ‬‮ ، 27 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

ایون فیلڈ ریفرنس: نواز شریف، مریم نواز کو مزید مہلت ،مریم نواز کے وکیل نے ’’کیلبری فانٹ ‘‘ کے الزام کی عدالت میں دھجیاں اُڑا کر رکھ دیں،حیرت انگیزدلائل

datetime 2  جولائی  2018
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(نیوز ڈیسک)شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ پراپرٹیز ریفرنس کی سماعت کے دور ان سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کو حاضری سے مزید 2 دن کا استثنیٰ دے دیا گیا۔ پیر کو احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے شریف خاندان کے خلاف نیب ریفرنس کی سماعت کی۔سابق وزیراعظم نواز شریف اور مریم نواز لندن میں ہونے کی وجہ سے آج پیش نہیں ہوئے۔مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کے وکیل ایڈووکیٹ امجد پرویز کے حتمی دلائل کا سلسلہ تیسرے روز بھی جاری رہا۔

احتساب عدالت میں سماعت کے دوران نواز شریف اور مریم نواز کی حاضری سے 7 دن کے استثنیٰ کی درخواست دائر کی گئی تاہم بحث کے دوران ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل سردار مظفر عباسی نے 7 روزہ استثنیٰ کی مخالفت کردی۔سردار مظفر عباسی نے کہا کہ ڈاکٹروں کی رپورٹ کے مطابق بیگم کلثوم نواز کی طبیعت بہتر ہے لہذا اب نواز شریف اور مریم نواز کا وہاں رہنا ضروری نہیں۔ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب نے کہا کہ قانون یہ نہیں کہتا کہ ہر پیشی پر 7 دن کا استثنیٰ مانگ لیا جائے۔انہوں نے کہا نواز شریف اور مریم نواز کو ٹائم دینا چاہیے کہ وہ ایک دو دن میں عدالت میں پیش ہوں۔احتساب عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا اور تھوڑی دیر بعد فیصلہ سناتے ہوئے نواز شریف اور مریم نواز کو حاضری سے 2 دن کا استثنیٰ دے دیا۔مذکورہ کیس کی 29 جون کو ہونے والی گزشتہ سماعت پر احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے ایڈووکیٹ امجد پرویز کو ایون فیلڈ ریفرنس میں پیر (2 جولائی) کو ہر حالت میں حتمی دلائل ختم کرنے کی ہدایت کی تھی۔پیر کو سماعت کے آغاز پر مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کے وکیل امجد پرویز نے تیسرے روز حتمی دلائل کا آغاز کیا۔وکیل صفائی امجد پرویز کا کہنا تھا کہ قانون کے مطابق متعلقہ شعبے میں مہارت والا ہی رائے دے سکتا ہے اور جس بنیاد پر ماہر رائے دے رہا ہے، وہ بنیاد بھی متعلقہ ہونی چاہیے۔ایڈووکیٹ امجد پرویز نے اعتراض اٹھایا کہ گواہ رابرٹ ریڈلے نے کہا کہ وہ 1976 سے اس شعبے میں کام کر رہے ہیں،

لیکن انہوں نے اپنی تعلیم نہیں بتائی۔انہوں نے کہا کہ رابرٹ ریڈلے کی سی وی ضرور ہے، لیکن بیان کے دوران وہ سی وی ریکارڈ پر نہیں دیکھی، استغاثہ کو وہ سی وی رابرٹ ریڈلے کے بیان کے وقت ریکارڈ پر لانی چاہیے تھی۔وکیل صفائی امجد پرویز نے دلائل کے دوران کہا کہ فونٹ کی شناخت کرنا ایک الگ مہارت ہے لیکن رابرٹ ریڈلے نے اپنی سی وی میں یہ مہارت ظاہر نہیں کی۔امجد پرویز نے کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ کے والیم 4 کے صفحہ 136 پر ایلن ریڈلے کی سی وی بھی موجود ہے، جس میں انہوں نے فونٹ شناخت کی مہارت ظاہر کر رکھی ہے،

لیکن ایلن ریڈلے کے مقابلے میں رابرٹ ریڈلے نے یہ بات نہیں لکھی۔وکیل صفائی امجد پرویز نے کہا کہ رابرٹ ریڈلے فونٹ شناخت کرنے کے ماہر نہیں ہیں، کسی ماہر پر لازم ہوتا ہے کہ وہ اپنی معلومات کے ذرائع بتائے۔ان کا کہنا تھا کہ رابرٹ ریڈلے نے جرح میں تسلیم کیا وہ کمپیوٹر کے ماہر نہیں۔امجد پرویز کے مطابق رابرٹ ریڈلے نے تسلیم کیا کہ 2005 میں انہوں نے کیلبری فونٹ ڈاؤن لوڈ کیا، اس اعترافی بیان سے ثابت ہوتا ہے کہ اْس وقت کیلبری فونٹ دستیاب تھا جبکہ استغاثہ نے کہا کہ 2007 سے پہلے کیلبری فونٹ کمرشل استعمال کے لیے دستیاب نہیں تھا۔

ایڈووکیٹ امجد پرویز نے دلائل کے دوران کہا کہ اگر استغاثہ کی بات مان لیں تو 2005 میں کیلبری فونٹ دستیاب ہونا خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔وکیل صفائی کے مطابق رابرٹ ریڈلے نے کہا کہ انہوں نے اپنی معلومات کے ذرائع ظاہر کر رکھے ہیں، لیکن حقیقت میں ایسا نہیں اور رابرٹ ریڈلے نے کوئی معلومات ظاہر نہیں کیں۔انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی نے رابرٹ ریڈلے کی خدمات اختر راجہ کے ذریعے حاصل کیں، یہ خدمات اختر راجہ کے بغیر بھی حاصل کی جاسکتی تھیں۔امجد پرویز نے دلائل کے دوران کہا کہ رابرٹ ریڈلے غیر جانبدار نہیں،

انہوں نے گواہی میں ضرورت سے زیادہ دلچسپی ظاہر کی۔انہوں نے کہا کہ رابرٹ ریڈلے نے اپنی پہلی رپورٹ میں فونٹ کی بات ہی نہیں کی، تین دن بعد ریڈلے نے دوسری رپورٹ بھیج دی، جس میں انہوں نے بات ہی فونٹ کے حوالے سے کی، لیکن یہ نہیں بتایا کہ پہلی رپورٹ میں فونٹ والی بات کیسے رہ گئی۔وکیل صفائی امجد پرویز نے کہا کہ رابرٹ ریڈلے نے فوٹو کاپی کا تجزیہ کرکے رپورٹ دی اور کہا کہ تجزیہ تجربے کے لیے بہترین طریقہ ہے، وہ فوٹو کاپیوں سے مطمئن نہیں۔ انہوں نے کہا کہ رابرٹ ریڈلے نے کہا کہ فوٹو کاپی سے جانچنا ممکن نہیں کہ

2004 کو کاٹ کر 2006 یا 2006 کو 2004 لکھا گیا۔امجد پرویز کے مطابق رابرٹ ریڈلے نے فیصلہ کرنے کا اختیار اس عدالت پر چھوڑا ہے۔وکیل صفائی امجد پرویز نے دلائل کے دوران مزید کہا کہ استغاثہ نے نہیں بتایا کہ ٹرسٹ ڈیڈ کہاں اور کس قانون کے تحت رجسٹرڈ کرانا ضروری تھی؟ جبکہ صفحہ مثل پر ایسی کوئی شہادت بھی موجود نہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اسٹیفن مورلے کے مطابق ایسی کوئی اتھارٹی نہیں جہاں ایسی ٹرسٹ ڈیڈ رجسٹرڈ کرائی جائے۔سماعت کے بعد ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت (آج) (3 جولائی) تک کے لیے ملتوی کردی گئی، جہاں ایڈووکیٹ امجد پرویز 2 سے 4 بجے تک دلائل دیں گے۔

موضوعات:



کالم



شیطان کے ایجنٹ


’’شادی کے 32 سال بعد ہم میاں بیوی کا پہلا جھگڑا…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)

آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…