اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)را اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہوں کی مشترکہ کتاب جو کہ اے ایس دلت اور اسد درانی کی جانب سے لکھی گئی کے حوالے سے ایک انٹرویو دیتے ہوئے جنرل مشرف کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت امن ہونا چاہئے اور امن تبھی آئے گا جب ہم تنازعات جیسے کشمیر، سیاچن کے مسائل حل نہیں کر لیتےمگر انڈین گورنمنٹ کا موڈ نظر نہیں آرہا۔ روزنامہ جنگ کی
رپورٹ کے مطابق پرویز مشرف کا کہنا تھا کہ بھارت کی حکومت اپنے ملک میں ہندو بالادستی لانا چاہ رہی ہے ۔ اگر بھارت اپنا نظریہ تبدیل کرتا ہے اور ہمارے آرمی چیف کو مدعو کرتے ہیں تو بہت اچھا ہو گا اور کرنا بھی چاہئے اور یہاں سے جانا بھی چاہئے، اچھی بات ہے اگر ہم مسائل کو آگے لے جا سکتے ہیں اور اس کا کوئی پر امن حل نکال لیتے ہیں تو اچھی بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے علم نہیں کہ را نے حملوں میں میری جان بچائی۔ بھارت کلبھوشن کی رہائی کیلئے دبائو ڈال رہا ہو گا، اسد درانی کو اس طرح کی باتیں نہیں کرنی چاہئے۔ کارگل جنگ کے دوران پرویز مشرف اور جنرل عزیز کے درمیان ہونیوالی کال انڈینز نے کیسے ٹریس کر کے ٹی وی پر نشر کر دی تھی اس حوالے سے پوچھے گئے سوال پر پرویز مشرف کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی ایسی باتیں نہیں تھیں ہاں انہوں نے پتہ نہیں کیسے وہ سن لیںلیکن اس میں کوئی ایسی خاص بات نہیں تھی کہ آرمی نے حکومت کو اس سے بے خبر رکھا ہو۔ کلبھوشن کی رہائی کے حوالے سے ایک سوال پر پرویز مشرف کا کہنا تھا کہ مجھے یقین ہے کہ یہ پورا پریشر ڈلوارہے ہوں گے، امریکہ سے بھی پریشر ڈلوایا جا رہا ہو گا اور خود بھی ڈال رہے ہیں تو کوشش تو ان کی پوری کوشش ہو گی کہ ایسا ہو جائے لیکن اگر ایسا ہوا تو یہ افسوسناک ہو گا میرے خیال میں پاکستان عوام میں عام آدمی میں یہ بات بالکل غلط نگاہ سے دیکھی جائے گی
اور غیر مقبول اقدام ہو گا۔ پرویز مشرف سے جب سوال کیا گیا کہ 2003 میں جو آپ پر حملہ ہوا ’’را‘‘نے آئی ایس آئی کو پہلے ہی اطلاع دیدی تھی اور ’’را‘‘نے آپ کی جان بچائی ہے اس پر جواب دیتے ہوئے پرویز مشرف کا کہنا تھا کہ پتہ نہیں مجھے نہیں معلوم، مجھے علم نہیں کہ ’’را‘‘نے میری جان بچائی ہے۔ میرا نہیں خیال ایسا ہے، انہوں نے کیسے میری جان بچائی میری تو جان بچ گئی تھی
وہ کچھ نہیں کر سکے تھے۔ اس وقت دو حادثے ہوئے تھے، چکلالہ برج کے اوپر جب میں برج سے گزرا تھا میں خوش قسمت تھا اللہ تعالیٰ نے ساتھ دیا، ایک دو سکینڈ پہلے اگر وہ بلاسٹ ہوتا تو میں اس کے اندر مارا جاتا۔ دوسرا حملہ جو تھا اس میں گاڑیاں آئیں انہوں نے بلاسٹ کیا اس میں بھی بچ گیا۔ گاڑی کے ٹائر وائر ختم ہو گئے، خودکش حملہ آور تھے جو میری گاڑی کے اوپر تھے لیکن میں پھر بھی بچ گیا
تو انہوں نے کیا بچایا مجھے سمجھ نہیں آئی کیسے بچایا انہوں نے۔اسامہ بن لادن کے حوالے سے ایک سوال پر پرویز مشرف کا کہنا تھا کہ مجھے پتہ نہیں یہ بہت کنفیوز ایشو ہے۔ کچھ کہتے ہیں کہ اسامہ ایبٹ آباد میں مارا ہی نہیں گیا وہ پہلے مار کے لائے تھے ، کوئی کہتے ہیں وہاں تھا ہی نہیں وہ ۔ میں اس پر کمنٹ نہیں کرنا چاہوں گا۔ میری نظر میں کسی کو نہیں پتہ تھا میں اس کی دو باتیں بتاتا ہوں
کیونکہ لوگ کہتے ہیں وہاں پانچ سال سے تھا وہ اگر پانچ سال سے تھا تو اس کے دو سال جو تھے وہ میرے دور حکومت کے نیچے تھے میں اس وقت صدر تھا اور میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ مجھے نہیں معلوم تھا۔ اب مجھے کیوں نہیں معلوم تھا کیا مجھ سے چھپا یا جا رہا تھا۔ کیا آئی ایس آئی میرے سے چھپا سکتی تھی، کیا آئی ایس آئی کے آفیسرز جو نچلے لیول کے بھی ہیں وہ بھی میرے
سے ملتے تھے، یہاں میں ایسا نہیں تھا کہ اپنے گھر میں بیٹھا رہوں کسی سے ملتا نہیں سب لوگ میرے سے ملتے تھے میرے بہت قریب ہوتے تھے ان میں سے کوئی بتا دیتا، دو سال تک مجھے کسی نے نہیں بتایا ، یہ کیسے ہو سکتا ہے اور میں یقین سے کہتا ہوں مجھے نہیں پتہ تھا کیونکہ جو انٹرویوز ہوئے اس واقعہ کے بعد تو تمام ٹی وی چینلز نے جا کر وہاں سویلینز سے انٹرویو کیا کس نے
نہیں کہا کہ ہمیں معلوم تھا کہ یہاں اسامہ بن لادن ہے اور ہماری انٹیلی جنس جو آئی ایس آئی ہے وہ ہیومن انٹیلی جنس تھی یعنی اگر کوئی بتا دے کہ فلاں بندہ وہاں بیٹھا ہے تو وہ اس کے پیچھے لگ جاتی تھی۔اسد درانی کی کتاب میں قومی سلامتی کے حوالے سے کی گئی باتوں کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال پر پرویز مشرف کا کہنا تھا کہ میں نہیں سمجھتا کہ اسد درانی کو ایسی باتیں کرنا چاہئیں تھیں۔ میں بھی حیران ہوں کہ انہوں نے ایک کتاب’’را‘‘کے چیف کے ساتھ مل کر، مطلب جو دشمن ملک ہے اس کے انٹیلی جنس کے چیف کے ساتھ مل کر ایک کتاب لکھی انہوں نے میرے خلاف کیا لکھا ہے آپ نے جو کہا ہے مجھے معلوم نہیں ہے لیکن معلوم ہو تو اس کا میں جواب ضرور دینا پسند کروں گا۔