اسلام آباد(آئی این پی ) قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ سے بھی فاٹا اور پاٹا کے خیبرپختونخوا میں انضمام سے متعلق آئینی ترمیمی بل دو تہائی اکثریت سے منظور کرلیا گیا۔ آئینی ترمیمی بل کے حق میں 71اور مخالفت میں 5 ووٹ پڑے۔حکومت کی اتحادی جماعتوں جمعیت علمائے اسلام (ف) اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی نے آئینی ترمیم کی مخالفت کی ۔ جے یو آئی (ف)نے بل کی منظوری کا بائیکاٹ کیا۔
بل کے تحت آئندہ پانچ سال تک فاٹا میں قومی اسمبلی کی 12اور سینیٹ میں 8نشستیں برقرار رہیں گی،5سال کے بعد فاٹا سے قومی اسمبلی کی نشستیں6جبکہ سینیٹ کی سیٹیں ختم کر دی جائیں گی،آئندہ برس فاٹاکیلئے مختص16 صوبائی نشستوں پر انتخابات ہوں گے، فاٹا انضمام کے بعد خیبر پختونخواہ اسمبلی کے اراکین کی تعداد 124سے بڑھ کر 145ہوجائے گی،فاٹا انضمام کے بعد خیبرپختونخوا میں فاٹا کی 21نشستیں مختص ہوں گی، جس میں 16عام نشستیں، خواتین کے لیے 4نشستیں جبکہ ایک اقلیتی نشست شامل ہوگی،فاٹا میں صوبائی قوانین کا فوری اطلاق ہوگا اور منتخب حکومت قوانین پر عمل درآمد کے حوالے سے فیصلہ کرے گی، آئین سے وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات الفاظ حزف کر دئیے جائیں گے،بل کے مطابق صوبائی حکومت کی عملداری سے صدر اور گورنر کے خصوصی اختیارات ختم ہوجائیں گے اور ایف سی آر کا بھی مکمل خاتمہ ہو جائے گا،این ایف سی ایوارڈ کے تحت فاٹا کو 24ارب روپے کے ساتھ 100 ارب روپے اضافی ملیں گے،10سال کے لیے ایک ہزار ارب روپے کا خصوصی فنڈ ملے گا ،ترمیمی بل میں سپریم کورٹ اور پشاور ہائی کورٹ کا دائرہ کار فاٹا تک بڑھایا جائے گا ، پاٹا اور فاٹا میں 5سال کیلئے ٹیکس استثنا دیا جائے گا۔آئین کے تحت قومی اسمبلی اور سینیٹ سے آئینی ترمیمی بل منظور ہونے کے بعد صدر مملکت ممنون حسین کے دستخط سے فاٹا اور پاٹا باضابطہ طور پر خیبرپختونخوا میں ضم ہو جائیں گے۔
جمعہ کو چیئرمین صادق سنجرانی کی زیرصدارت سینیٹ کا اجلاس ہوا ۔ وفاقی وزیر قانون و انصاف چوہدری محمود بشیر ورک نے فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام سے متعلق آئینی ترمیم بل پیش کرنے کیلئے تحریک پیش کی ۔چیئرمین سینیٹ نے تحریک پر رائے شماری کرائی جس کے حق میں 71جبکہ مخالفت میں 5ووٹ پڑے ۔پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سینیٹرزنے تحریک کی مخالفت میں ووٹ دیا۔
جبکہ جمعیت علمائے اسلام (ف) نے بل کی منظوری کے دوران بائیکاٹ کیا۔ آئینی ترمیم بل پیش کرنے کی تحریک منظوری کے بعدچیئرمین نے بل کی شق وار منظوری کروائی ،آئینی ترمیمی بل کی شق 2کے حق میں 71اور مخالفت میں 5،شق 3کے حق میں 71جبکہ مخالفت میں 5،بل کی شق 4کے حق میں 71جبکہ مخالفت میں 5،شق5 کے حق میں71جبکہ مخالفت میں5، شق 6کے حق میں 71جبکہ مخالفت
میں5، شق7کے حق میں71جبکہ مخالفت میں5، شق8کے حق میں71جبکہ مخالفت میں 5، شق 9کے حق میں 71جبکہ مخالفت میں5، بل کی شق ون اور ٹائٹل کے حق میں71اورمخالفت میں 5 ووٹ پڑے ۔ بل کی شق وار منظوری کے بعد چیئرمین سینیٹ نے25ویں آئینی ترمیم کی حتمی منظوری کیلئے ووٹنگ کے طریقہ کار کا اعلان کیا اور بل کے حق میں ارکان کو اپنی دائیں جانب موجود گیلری جبکہ بل کی مخالفت
میں ارکان کو اپنی بائیں جانب موجود گیلری میں جانے کی ہدایت کی ۔ آئینی ترمیم کی ووٹنگ کا عمل مکمل ہونے کے بعد چیئرمین سینیٹ نے نتائج کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ25ویں آئینی ترمیم کے حق میں71 جبکہ مخالفت میں5ارکان نے ووٹ دیا ،آئین کے تحت دو تہائی اکثریت سے آئینی ترمیم منظور کر لی گئی ۔آئینی ترمیمی بل کے تحت آئندہ پانچ سال تک فاٹا میں قومی اسمبلی کی 12 اور سینیٹ میں 8 نشستیں برقرار رہیں گی۔
اور فاٹا کے لیے مختص صوبائی نشستوں پر انتخابات اگلے سال ہوں گے۔بل کے تحت آئندہ پانچ سال تک فاٹا میں قومی اسمبلی کی 12اور سینیٹ میں 8نشستیں برقرار رہیں گی،5سال کے بعد فاٹا سے قومی اسمبلی کی نشستیں6جبکہ سینیٹ کی سیٹیں ختم کر دی جائیں گی،2018میں عام انتخابات کے ایک سال کے اندر فاٹا میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات ہوں گے ۔
فاٹا انضمام کے بعد خیبر پختونخواہ اسمبلی کے اراکین کی تعداد 124سے بڑھ کر 145ہوجائے گی،فاٹا انضمام کے بعد خیبرپختونخوا میں فاٹا کی 21نشستیں مختص ہوں گی، جس میں 16عام نشستیں، خواتین کے لیے 4نشستیں جبکہ ایک اقلیتی نشست شامل ہوگی،آئندہ برس فاٹا کے لیے مختص صوبائی نشستوں پر انتخابات ہوں گے، فاٹا میں صوبائی قوانین کا فوری اطلاق ہوگا اور منتخب حکومت قوانین پر عمل درآمد کے حوالے سے فیصلہ کرے گی ۔
آئین سے وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات الفاظ حزف کر دئیے جائیں گے،بل کے مطابق صوبائی حکومت کی عملداری سے صدر اور گورنر کے خصوصی اختیارات ختم ہوجائیں گے اور ایف سی آر کا بھی مکمل خاتمہ ہو جائے گا،این ایف سی ایوارڈ کے تحت فاٹا کو 24 ارب روپے کے ساتھ 100 ارب روپے اضافی ملیں گے،10 سال کے لیے ایک ہزار ارب روپے کا خصوصی فنڈ ملے گا جو کسی اور جگہ استعمال نہیں ہو سکے گا ۔
ترمیمی بل میں سپریم کورٹ اور پشاور ہائی کورٹ کا دائرہ کار فاٹا تک بڑھایا جائے گا ، پاٹا اور فاٹا میں 5 سال کے لیے ٹیکس استثنا دیا جائے گا۔بل کے تحت پانچ سال کے بعد قومی اسمبلی میں فاٹا کی نشستیں 12سے کم کر کے 6کر دی جائیں گی جبکہ آئین سے وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات الفاظ حزف کر دئیے جائیں گے ۔قومی اسمبلی اور سینیٹ سے آئینی ترمیمی بل منظور ہونے کے بعدصدر مملکت ممنون حسین
کے دستخط سے فاٹا اور پاٹا باضابطہ طور پر خیبرپختونخوا میں ضم ہو جائیں گے ۔ قبل ازیں بل پراظہار خیال کرتے ہوئے پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سینیٹر عثمان خان کاکڑ نے کہا کہ مرکزی حکومت اور اپوزیشن فاٹا کے حوالے سے غیر آئینی طور پر وہ ترمیم لارہے ہیں جس کا پارلیمنٹ کو اختیار نہیں،قومی اسمبلی میں صرف ایک ووٹ سے بل پاس کیا ،کیا گزشتہ روز فا ٹا کیلئے بلیک ڈے تھا اور آج بھی ہے۔
فاٹا کی اپنی تاریخ ہے، ایف سی آر کو ختم ہونا چاہئے فاٹا نیم خودمختار علاقہ تھا اور ہے گااس کے عوام گرینڈجرگے کے ذریعے فیصلے کرتے تھے اس کے جرائم ملک کے دوسرے شہروں کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر تھے ۔انہوں نے کہا کہ فاٹا کو افغانستان کے خلاف اور ملک میں دہشت گردی کیلئے بیس کیمپ بنایا۔ تیس ہزار لوگ شہید ہوئے۔ہزاروں لاپتہ ہیں ۔ میران شاہ کی سات ہزار دکانیں تباہ کردی گئیں۔
اصلاحاتی کمیٹی اصلاحات کیلئے ہے انضمام کے لئے نہیں۔ سینٹ میں وزیر سیفران نے کہا کہ وہ انضمام نہیں چاہتے بنگال کے ووٹ کی اہمیت نہیں دی گئی جب ان کی رائے کو اہمیت نہیں دی تو بنگلہ دیش بنا کل جنرل یحییٰ کی سربراہی میں ہوا اور آج جنرل باجوہ کی سربراہ میں ہورہا ہے۔قومی سلامتی کمیٹی پارلیمنٹ کو ہدایت دے رہی ہے جلد از جلد اس کو ضم کردو۔ ژوب چاغی‘ نوشکی‘ مری‘ ٹیکس فری تھا ۔
ملاکنڈ فاٹا کی ڈیڑھ کروڑ آبادی کو پچاس لاکھ پر لایا۔ اس ترمیم سے قومی اسمبلی کی6اور آٹھ سینٹ کی سیٹیں ختم کر دی گئیں۔ سینٹ کے اختیارات یہ لوگ نہیں دیں گے فاٹا میں جلد بازی اس لئے ہے کہ الیکشن منسوخ کرنے کا بہانہ ہے۔سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ قبائلی علاقوں کی طویل جدوجہد رہی ہے اور آبادی پر ظلم و بربریت کی بھی ایک داستان ہے۔ قبائلی علاقوں کے لوگ دہشت گردی کی وجہ سے بے گھر ہوئے۔
انہوں نے قربانیاں دیں اور ہمیشہ حب الوطنی کا ثبوت دیا۔ فاٹا کے حوالے سے اصلاحات کا آغاز محترمہ بے نظیر بھٹو نے کیا اور باقاعدہ کمیٹی قائم کی۔ذوالفقار علی بھٹو شہید فاؤنڈیشن نے بھی اس حوالے سے بڑا کام کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بہتر ہوتا کہ پارلیمنٹ فاٹا کے حوالے سے آئینی ترمیم کا فیصلہ کرتی مگر یہ قومی سلامتی کمیٹی کے فیصلے کے بعد عمل میں لایا گیا۔
سینیٹر اعظم سواتی نے کہا کہ ہماری جماعت نے اس حوالے سے اہم کردار ادا کیا ہے اور ہماری جدوجہد کامیاب ہوئی ہے۔ سینیٹر محمد علی سیف نے کہا کہ فاٹا کو حقوق ملنا ایک تاریخی جدوجہد کا نتیجہ ہے۔سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ ہر جمہوریت پسند کارکن نے فاٹا کے معاملہ پر جدوجہد کی ہے۔ مالاکنڈ ڈویژن کے عوام کو جو مراعات حاصل ہیں ان کو واپس نہ لیا جائے۔ سینیٹر ستارہ ایاز نے کہا کہ یہ دن بڑی خوشی کا دن ہے۔
ایف سی آر کا خاتمہ بڑا اقدام ہے۔ شیری رحمان نے کہا کہ آج مبارک دن ہے، اختلاف کرنے والے ارکان کو اختلاف کا حق ہے۔ یہ کہنا کہ پیپلز پارٹی کسی اشارے پر ایسا کر رہی ہے، اس پر مجھے اعتراض ہے۔ایف سی آر کے خاتمے کے لئے ہم برسوں سے بات کر رہے ہیں۔ پی پی پی کی حکومت نے اصلاحات کا عمل شروع کیا۔ فاٹا کے عوام نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بڑی قربانیاں دی ہیں۔ سینیٹر مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا کہ فاٹا کی ایک آئینی حیثیت تھی جس کو ہم تبدیل کرنے جا رہے ہیں،دیکھنا ہے کہ کیا ایسا کرتے وقت ہم ان کی رائے لے رہے ہیں یا نہیں الگ صوبے کی صورت میں انہیں فائدہ زیادہ ہوتا۔