اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) فلسطینیوں پر اسرائیلی فوج کے مظالم پر دنیا سراپا احتجاج ہے اور دنیا بھر کے مسلمان اپنے حکمرانوں سے فلسطینیوں کے حق میں عملی اقدامات کی امید لگائے بیٹھے ہیں مگر او آئی سی اجلاس کے بعد اس حوالے سے دنیا بھر کے مسلمان ایک بار پھر ناامیدی اور مایوسی کا شکار ہو چکے ہیں، سفارتی سطح پر بیانات تو دئیے گئے مگر تاحال مسلم ممالک کی جانب سے
اسرائیل کے خلاف اور فلسطینیوں کے حق میں کسی قسم کا کوئی عملی اقدام سامنے نہیں آیا ۔ اسی دوران جنوبی افریقہ فلسطین کے نہتے مسلمانوں کے حق میں میدان میں آگیا ہے اور اس کے دبنگ اقدامات نے مسلمان ممالک کے حکمرانوں کو شرم سے پانی پانی کر دیا ہے۔ یروشلم میں امریکی سفارتخانے کی منتقلی کے دن فلسطینیوں کے قتل عام کے خلاف جنوبی افریقہ نے احتجاجاََ اسرائیل سے اپنا سفیر واپس بلالیا تھا اور وہاں کے سیاسی حلقوں میں اس حوالے سے اسرائیل کے خلاف شدید غصہ بھی پایا جاتا ہے جو ببانگ دہل انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ساتھ عالمی قوانین اور معاہدوں کو پائوں تلے روند رہا ہے۔ جنوبی افریقہ کے مسلمان انقلابی رہنماء55سالہ ابراہیم رسول، جو امریکہ میں جنوبی افریقہ کے سفیر بھی رہے، کا کہنا تھا کہ ’’اس وقت فلسطینیوں کواسرائیلی فوج کے ہاتھوں انتہائی بے رحمانہ اور سنگدل صورتحال کا سامنا ہے۔ 70سال قبل اسرائیل نامی ریاست قائم کرنے کے لیے ہزاروں فلسطینیوں کو بے گھر کیا گیا اور اب امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنا اس کے بعد دوسرا بڑا واقعہ ہے جس میں فلسطینیوں کا سب سے زیادہ جانی نقصان ہو رہا ہے۔ اگرفلسطینیوں کا اپنی بقاء کی حفاظت کرنا اسرائیل کے لیے نیشنل سکیورٹی ہے تو میں حیران ہوں کہ اگر ہمارے پاس نیلسن میڈیلا اور افریقن نیشنل کاگریس نہ ہوتی تو ہمارا کیا ہوتا۔اس وقت ہم اپنے وجود
کو بچانے کی جو جدوجہد کر رہے تھے، آج ویسی ہی جدوجہد فلسطینی کر رہے ہیں۔‘‘جنوبی افریقہ میں سیاہ فام باشندوں کے حقوق کی جنگ لڑنے اور اس میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے والے ابراہیم رسول کامزید کہنا تھا کہ ’’اسرائیل جانتا ہے کہ اسے امریکہ کی غیرمشروط حمایت حاصل ہے اور رہے گی۔ فلسطینیوں کی ابتلاء کی یہی بنیادی وجہ ہے اور یہی فلسطین اور اسرائیل کے جھگڑے کے
دو ریاستی حل کے منظرعام سے غائب ہو جانے کا سبب ہے۔ مجھے بہت افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ امریکہ کا رویہ فلسطین اور اسرائیل نام کی دو آزاد ریاستوں کے قیام کی بجائے ایک ریاست کے قیام کی طرف بڑھ رہا ہے۔ وہ ریاست اسرائیل ہو گی اور اس میں کئی حراستی مراکز ہوں گے جن میں فلسطینیوں کو قید کیا جائے گا۔ میں خود جنوبی افریقہ کی جدوجہد میں پلاسٹک کی گولیوں اور
آنسو گیس کے شیلز کا سامنا کر چکا ہوں اور آج میں فلسطینیوں کی حالت کو دیکھتا ہوں تو مجھے نیلسن مینڈیلا کے وہ الفاظ یاد آتے ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ ’ہم حقیقی معنوں میں تب تک آزاد نہیں ہوں گے جب تک فلسطینی آزاد نہیں ہو جاتے۔‘فلسطینیوں کو صرف اسی صورت میں انصاف ملے گا جب ہم اور دیگر ممالک متحد ہو جائیں گے، ہم اسرائیل اور امریکہ کو بلینک چیک نہیں دیں گے،
ہم انہیں فری پاس نہیں دیں گے۔ ہمیں اس لمحے متحد ہونے کی ضرورت ہے کیونکہ آج ہم فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم پر خاموش تماشائی بنے رہے تو کل ہم خود ان کا نشانہ بن رہے ہوں گے۔‘‘