لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) لاہور ہائیکورٹ نے قصور میں ریلی کے دوران عدلیہ مخالف نعرے بازی کیس میں ملزمان کی جانب سے زبانی معافی مانگنے پر ریمارکس دیئے کہ توہین عدالت میں زبانی معافی مانگنے کی بجائے جو کچھ کہنا ہے تحریری طور پر عدالت میں پیش کیا جائے۔ گزشتہ روز لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی کی سربراہی میں تین رکنی فل بنچ نے کیس کی سماعت شروع کی تو درخواست گزاروں کے
وکیل میاں ظفر اقبال کلانوری نے عدالت کوبتایا کہ قصور کے کشمیر چوک پر سابق وزیراعظم کی نااہلی کے موقع پر ملزمان نے عدلیہ مخالف ریلی نکالی۔ملزمان عدلیہ مخالف نعرے بازی کر کے توہین عدالت کے مرتکب ہوئے۔ڈسٹرکٹ بار قصور کی جانب سے ایڈووکیٹ احسن بھون نے کہا کہ ریلی میں موجود قائدین اور کارکنان نے عدلیہ کے خلاف تضحیک آمیز نعرے بازی کی ،ملزمان کسی رعائت کے مستحق نہیں۔ دوران سماعت ملزمان نے کہا کہ وہ اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے خود کو عدالتی رحم و کرم پر چھوڑتے ہیں ہمیں معاف کر دیا جائے۔ملزمان نے بتایا کہ ان کی درخواست ضمانتیں عدالت کی جانب سے وصول ہی نہیں کی جا رہیں۔ جس پر فاضل عدالت نے ریمارکس دیئے کہ توہین عدالت میں زبانی معافی مانگنے کی بجائے جو کچھ کہنا ہے تحریری طور پر عدالت میں پیش کیا جائے۔ عدالت نے ممبر انسپکشن ٹیم کو طلب کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی مقدمے کا توہین عدالت سے متعلق جاری کاروائی سے کوئی تعلق نہیں، انسداد دہشت گردی عدالت کے جج کو آگاہ کیا جائے کہ ملزمان کی درخواست ضمانتوں پر قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔ عدالت نے تمام گواہان کی فہرست طلب کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 22مئی تک ملتوی کر دی۔ لاہور ہائیکورٹ نے قصور میں ریلی کے دوران عدلیہ مخالف نعرے بازی کیس میں ملزمان کی جانب سے زبانی معافی مانگنے پر ریمارکس دیئے کہ توہین عدالت میں زبانی معافی مانگنے کی بجائے جو کچھ کہنا ہے تحریری طور پر عدالت میں پیش کیا جائے۔