اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)عمران خان کی تیسری شادی کی خبر میڈیا کی زینت کیا بنی اس کی گونج تاحال سنائی دے رہی ہے۔ عمران خان کو اپنی روحانی مرشد سے شادی کرنے پر جہاں ان کے سیاسی حریفوں نے سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور انہیں ایک ہنستا بستا گھر اجاڑنے کی وجہ قرار دیتے ہوئے ان پر نہایت نازیبا الزامات تک لگائے وہیں اب بھی کچھ صحافتی حلقوں میں عمران خان کی
تیسری شادی کو لیکر ایک عجیب بحث جاری ہے۔ معروف کالم نگار ڈاکٹر محمد اسلم ڈوگر اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ بظاہر یہ بات عجیب محسوس ہوتی ہے کہ ایک 65 سالہ سیاستدان جو ایک بڑی سیاسی جماعت کا سربراہ ہے۔ کرکٹ کے میدان میں عالمی شہرت کا حامل ہے۔ وزیراعظم بننے کے لئے اپنی مرشد کے ساتھ شادی کرتا ہے۔ عمران خان کو خوب علم تھا کہ اس کی شادی پر کیا ردعمل ہو گا۔ مگر اس کے باوجود اس نے اپنی مرشد کو بیوی بنا لیا ایک ایسی عورت جو پانچ بچوں کی ماں ہے اور نانی اور دادی کے عہدے پر فائز ہو چکی ہے۔ بشریٰ مانیکا نے اپنے شوہر سے طلاق لی مگر اس کا شوہر اپنی بیوی کی پاکدامنی کا اصرار کر رہا ہے تاہم بشریٰ مانیکا کے خاندان نے ان کی طلاق اور شادی کو پسند نہیں کیا۔ ان کے ایک قریبی عزیز نے پاکپتن میں اس کی وجہ سے پاکستان تحریک انصاف کو چھوڑنے کا اعلان کر دیا۔ عمران خان مدتوں سے وزیراعظم بننے کا خواب دیکھ رہے ہیں اور محترمہ بشریٰ نے انہیں یقین دلایا ہے کہ وہ ان کے اس خواب کو پورا کر دیں گی۔ امید ہے انہوں نے لاہور کے جلسے کی کامیابی کو ان بکروں کے صدقے کی مرہون منت قرار دیا ہو گا جو ان کے مشورے پر ذبح کئے گئے تھے محترمہ بشریٰ مانیکا حجاب کرتی ہیںانہوں نے میڈیا کو اپنا چہرہ نہیں دکھایا۔ اس طرح ان کے متعلق میڈیا ابھی تک تجسس میں مبتلا ہے کہ عمران اس شادی پر کیسے آمادہ ہوئے؟
قیاس کیا جا سکتا ہے کہ عمران خان کو یقین تھا کہ انہوں نے سیاسی میدان میں جو کامیابیاں حاصل کی ہیں وہ محترمہ بشریٰ کے روحانی کمالات کا نتیجہ ہیں۔ محترمہ بشریٰ کی روحانیت پر غیر معمولی یقین نے ہی عمران خان کو شادی کرنے کے فیصلے پر آمادہ کیا۔ عمران خان کے حامی اصرار کرتے ہیں کہ بشریٰ کے ساتھ شادی کے بعد میاں نوازشریف مسلسل زوال کا شکار ہیں اور
بظاہر وہ اقتدار سے دور ہوتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ مختلف اداروں سے ان کے اختلافات میں اضافہ ہو رہا ہے اور وہ ایک ایسی محاذ آرائی کی سیاست کا حصہ بنے ہوئے ہیں جس سے ان کے سیاسی مصائب مسلسل بڑھ رہے ہیں اسلام آباد میں محترمہ بشریٰ مانیکا کی روحانیت کے متعلق جو افواہیں گردش کر رہی ہیں ان میں ایک یہ بھی ہے کہ انہوں نے بنی گالا میں عبادت کے لئے ایک کمرہ مختص کیا ہوا ہے
جس میں وہ خاصا وقت گزارتی ہیں اس کی صفائی وغیرہ بھی وہ خود ہی کرتی ہیں۔ کہا جاتا ہےکہ اس کمرے میں ہر روز تازہ کھانا رکھا جاتا ہے اس کے بعد اس کمرے کو مقفل کر دیا جاتا ہے۔ اگلے روز جب کمرہ کھولا جاتا ہے تو کھانے کے برتن صاف ہوتے ہیں۔ ہمارے خیال کے مطابق اس افواہ میں کوئی حقیقت نہیں ہے کیونکہ اگراس کمرے میں کوئی جن رہتا ہے تو وہ جن اتنا بے بس ہے کہ
اسے ہر روز کھانے کی ضرورت پڑتی ہے۔ ایسے جن سے یہ امید وابستہ نہیں کی جا سکتی کہ وہ کسی طرح عمران خان کے لئے وزارت عظمیٰ کا بندوبست کر دے گا عمران خان آکسفورڈ کے تعلیم یافتہ ہیں فیس بک پر آکسفورڈ کے حوالے سے ایک دلچسپ پوسٹ وائرل ہو رہی ہے اس کے مطابق آکسفورڈ کے تعلیم یافتہ ذوالفقار علی بھٹو سہیون شریف اور داتا صاحب کے درباروں کے لئے
سونے کے دروازے بناتے ہیں آکسفورڈ کی تعلیم یافتہ بے نظیر بھٹو بابا دھنکہ کے قدموں میں بیٹھ کر ان سے جھاڑو کی مار کھاتی ہیں آکسفورڈ ہی کے تعلیم یافتہ عمران خان صاحب دوبکرے ذبح کر کے اور پیرنی کے دیئے گئے وظائف پڑھ کر جلسے میں جاتے ہیں پھر آکسفورڈ ہی کے تعلیم یافتہ بلاول بھٹو زرداری جلسے کے لئے امام ضامن باندھ کر جاتے ہیںسبز پگڑی پہنے بھی دکھائی دیتے ہیں۔
لگتا ہے آکسفورڈ کی تعلیم ہی ساری خرابی کی جڑ ہے کرسٹینا لیمب کا تعلق برطانیہ سے ہے۔ انہوں نے جنوبی ایشیا اور پاکستان کے متعلق خاصی چونکا دینے والی چیزیں لکھی ہیں۔ انہیں اس پر ضرور غور کرنا چاہیے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ آکسفورڈ سے جو لوگ تعلیم حاصل کر کے پاکستان آتے ہیں وہ اقتدار کے لئے روحانی راستے تلاش کرتے ہیں۔ جبکہ پاکستان سے جو لوگ برطانیہ جاتے ہیں
وہ محنت کے ذریعے کامیابیاں حاصل کرتے ہیں اس کی تازہ مثال ساجد جاوید ہیں جو نئے وزیر داخلہ مقرر ہوئے ہیں برطانیہ میں وزارت عظمیٰ کے بعد وزارت داخلہ کو اہم ترین قرار دیا جاتا ہے۔ ساجد کے والد 1960ء کے عشرے میں برطانیہ گئے وہ ٹرک ڈرائیور تھے۔ بی بی سی ساجد جاوید کی کامیابیوں کو ان کی محنت کا ثمر قرار دے رہی ہے۔ ساجد جاوید کے والد کو مسٹر ڈے اینڈ نائٹ کے
نام سے جانا جاتا تھا کیونکہ انہوں نے اپنی تقدیر بنانے کے لئے دن رات محنت کا راستہ اختیارکیا تھا۔ لندن کے میئر صادق خان بھی پاکستانی نژاد ہیں ان کے والد بھی بس ڈرائیور تھے۔ برطانوی پارلیمنٹ میں وزیر بننے والی پاکستانی نژاد خاتون سعیدہ وارثی کے والد بھی بس ڈرائیور تھےاور انہوں نے اپنی محنت سے اپنے خاندان کی تقدیر تبدیل کی تھی۔ پاکستان سے برطانیہ جانے والے محنت میں
عظمت تلاش کرتے ہیں جبکہ برطانیہ سے پاکستان واپس آنے والے کامیابی اور اقتدار کے لئے روحانی راستوں پر گامزن ہوتے ہیں شاہد ملک صاحب ہمارے دوست اور استاد ہیں۔ زندگی کے معاملات میں ہم نے ہمیشہ ان کا فرمایا ہوا مستند جانا ہے۔ وہ برسوں بی بی سی لندن کے ساتھ وابستہ رہے۔ میں نے ان سے برطانیہ اور پاکستان کی زندگی کے درمیان فرق کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے
فرمایا کہ کام کرنے کے لئے برطانیہ زبردست ہے اور زندگی گزارنے کے لئے پاکستان کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ ان کی خواہش ہے کہ ٹیکنالوجی اتنی زیادہ ترقی کر جائے کہ وہ صبح کام کرنے کے لئے لندن جائیں اور شام کو سونے کے لئے لاہور میں اپنے گھر میں آ جائیں۔ ان کا کہنا ہے کہ برطانیہ میں کام کرنا بہت پرلطف ہے۔ آپ اپنے کام کو حقیقی معنوں میں انجوائے کرتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ
مستقبل میں ایسا وقت آئے جب ٹیکنالوجی ان کی خواہش پوری کر دمگر شاید کبھی یہ معمہ حل نہ ہو پائے کہ لوگ اقتدار تک پہنچنے کے لئے روحانی مرشدوں کے پاس کیوں جاتے ہیں ان سے ڈنڈے کھا کر کیوں خوش ہوتے ہیں۔ حتیٰ کہ وزیراعظم بننے کے لئے مرشدنی سے شادی بھی کر لیتے ہیں۔ پاکستان میں انتخابات کا مرحلہ سر پر آن پہنچا ہے۔ انتخابات کوئی نہ کوئی سرپرائز لے کر آتے ہیں۔
ہو سکتا ہے کہ عمران پھر وزیر اعظم بنتے بنتے رہ جائیں۔ مگر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ عمران خان وزیراعظم بن جائیں۔ ایسی صورت میں محترمہ بشریٰ خاتون اول ہوں گی اور شاید انسانی تاریخ میں یہ مثال روشن ہو گی کہ مرشد خاتون سے شادی بھی آپ کے لئے اقتدار کے دروازے وا کر سکتی ہے