پیر‬‮ ، 07 اپریل‬‮ 2025 

ہاتھ پیچھے بندھے ہوئے اور پھر بھی خودکشی کرلی،پاکستان کی تاریخ میں انوکھا ترین کام ڈی سی گوجرانوالہ سہیل احمد ٹیپو نے کیوں اور کیسے کرلیا؟ پولیس نے عجیب و غریب منطق پیش کردی ‎

datetime 24  مارچ‬‮  2018
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)ڈپٹی کمشنر گوجرانوالہ سہیل احمد ٹیپو کی خود کُشی کا معمہ حل کر لیا گیا، پولیس افسران کی موجودگی میں رات گئے کانسٹیبل کے ذریعے ہاتھ باندھ کرڈاکٹروں کے سامنے خود کُشی کرنے کی فرضی پریکٹس کئے جانے کا انکشاف۔ پولیس اہلکار نے خود ہی اپنے ہاتھ باندھ کر خود کُشی کرنے کی فرضی مشق کی جس پر ڈاکٹروں سمیت دیگر افسران کو یقین ہو گیا کہ مقتول خود اپنے ہاتھ باندھ کر خودکشی کر سکتا ہے۔

ہاتھ باندھ کر خود کُشی کرنے کی فرضی مشق صرف یہ دیکھنے کے لیے کی گئی تھی تاکہ یہ پتہ کیا جا سکے کہ آیا ہاتھ باندھ کر کسی شخص کا خود کُشی کرنا ممکن بھی ہے یانہیں۔پولیس ذرائع کے مطابق ڈی سی او گوجرانوالہ سہیل احمد ٹیپو گذشتہ دو ہفتوں سے ڈپریشن کا شکار تھے ۔ انہوں نے کمشنر گوجرانوالہ کو تحریری طور پر لکھ کر بھی دیا تھا کہ انہیں ڈی سی او کہ عہدے سے ہٹا دیا جائے لیکن ان کا تبادلہ نہیں کیا گیا ۔ خودکُشی کے روز سہیل احمد ٹیپو نے اپنی اہلیہ سے 9 بج کر 30 منٹ پر بات کی اور ساری رات جاگتے رہے۔3 بجے اپنے والدین کو اُٹھا کر سہیل احمد ٹیپو نے کہا کہ چھت پر کوئی بکری ہے یا کچھ اور ہے آوازیں آ رہی ہیں اگر کوئی آواز آئے تو پریشان نہیں ہونا۔ ذرائع نے بتایا کہ سہیل احمد ٹیپو نے اپنے والدین کو ذہنی طور پر تیار کر لیا تھا تاکہ خود کُشی کے وقت اگر اس کی آواز نکلےبھی تو بھی والدین پریشان نہ ہوں۔ دوسری جانب یہ بات سامنے آئی کہ کمشنر گوجرانوالہ نے کچھ عرصہ قبل نفسیاتی ڈاکٹرز کا ایک پینل بُلوا کر سہیل احمد ٹیپو کا دو گھنٹے تک چیک اپ کروایا۔جس کے بعد ڈاکٹرز نے کہا کہ سہیل احمد ٹیپو ڈپریشن کا شکار ہیں۔ انہیں دوائی کی ضرورت ہے جس کے بعد وہ ٹھیک ہو جائیں گے۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ سہیل احمد ٹیپو کو گھریلو معاملات سے متعلق کوئی ڈپریشن نہیں تھا، محکمہ میں کسی افسر کی ڈانٹ ڈپٹ کی وجہ سے عین ممکن ہے کہ وہ ذہنی طور پر پریشان ہو گئے ہوں۔

تاہم رپورٹس میں یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ سہیل احمد ٹیپو کی ہلاکت کا معاملہ 100 فیصد خود کُشی کا معاملہ ہے۔دوسری جانب یہ بات بھی سامنے آئی کہ ڈی سی گوجرانوالہ کی موت کے بعد ان کے ماموں کی جانب سے تھانہ سول لائن میں درج کروایا گیا قتل کا مقدمہ دراصل محکمہ کی جانب سے دوران ڈیوٹی فوت یا قتل ہوجانے والے ملازمین کو دی جانیوالی امداد کیلئے کٹوایا گیا ہے۔ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اگر کوئی حاضر سروس سرکاری ملازم خودکشی کر لے تو محکمہ کی طرف سے امداد نہیں ملتی۔تھانہ سول لائن کے مطابق پوسٹمارٹم رپورٹ میں خود کُشی ثابت ہو گئی ہے ، تاہم ابھی رپورٹ منظر عام پر نہیں لائی گئی جبکہ مقدمہ بھی قتل کا ہی درج کیا گیاہے۔

موضوعات:



کالم



زلزلے کیوں آتے ہیں


جولیان مینٹل امریکا کا فائیو سٹار وکیل تھا‘…

چانس

آپ مورگن فری مین کی کہانی بھی سنیے‘ یہ ہالی ووڈ…

جنرل عاصم منیر کی ہارڈ سٹیٹ

میں جوں ہی سڑک کی دوسری سائیڈ پر پہنچا‘ مجھے…

فنگر پرنٹس کی کہانی۔۔ محسن نقوی کے لیے

میرے والد انتقال سے قبل اپنے گائوں میں 17 کنال…

نارمل معاشرے کا متلاشی پاکستان

’’اوئے پنڈی وال‘ کدھر جل سیں‘‘ میں نے گھبرا…

آپ کی امداد کے مستحق دو مزید ادارے

یہ2006ء کی انگلینڈ کی ایک سرد شام تھی‘پارک میںایک…

بلوچستان میں کیا ہو رہا ہے (دوسرا حصہ)

بلوچستان کے موجودہ حالات سمجھنے کے لیے ہمیں 1971ء…

بلوچستان میں کیا ہو رہا ہے؟ (پہلا حصہ)

قیام پاکستان کے وقت بلوچستان پانچ آزاد ریاستوں…

اچھی زندگی

’’چلیں آپ بیڈ پر لیٹ جائیں‘ انجیکشن کا وقت ہو…

سنبھلنے کے علاوہ

’’میں خانہ کعبہ کے سامنے کھڑا تھا اور وہ مجھے…

ہم سیاحت کیسے بڑھا سکتے ہیں؟

میرے پاس چند دن قبل ازبکستان کے سفیر اپنے سٹاف…