کراچی (این این آئی)سندھ اسمبلی کی ڈپٹی اسپیکر اور پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما شہلا رضا نے کہاہے کہ صوبائی اسمبلی میں ایم کیو ایم پاکستان کے رکن نے مجھے کھلے عام دھمکی دی جس پر مجبوراً انہیں ایوان سے باہر نکالنا پڑا۔ایک انٹرویومیں شہلا رضا نے کہا کہ اسمبلی کے اجلاس میں واضح طور پر یہ پیغام دے چکی تھی کہ اگر آپ نے موضوع سے ہٹ کر کوئی بات کی اور پھر سوال پوچھا تو میں آپ کو بٹھا دوں گی اور بعد ازاں مجھے ایسا کرنا پڑ
ا جس کے بعد متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے رکن محمد حسین صاحب کھڑے ہوگئے اور اعتراض کرنا شروع کر دیا اور بجائے اس کے کہ وہ مجھ سے اصول اور ضابطے کی بات کرتے وہ مجھے دھمکیاں دینے لگے۔انہوں نے کہا کہ اسمبلی میں ایک گھنٹہ احتسابی معاملات سے متعلق ہوتا ہے جس میں 5 سے 6 سوال کیے جاتے ہیں جس میں موور 3 سوال پوچھتا ہے اور 5 سپلیمنٹری سوال ہوتے ہیں، ہمارے یہاں اب کچھ لوگوں نے یہ وطیرہ بنا لیا ہے کہ سوال سے پہلے ایک تقریر کی جاتی ہے اور اس کے بعد ایک عجیب سا سوال پوچھا جاتا ہے جس کی وجہ سے وقت کا ضیاع ہوتا ہے، اس حرکت سے وزیر بھی ناراض ہوتے ہیں اور ساتھ ہی ممبران بھی شکایت کرتے ہیں کہ ان کے سوال کی باری نہیں آئی۔انہوں نے کہا کہ کسی بھی اسمبلی میں اسپیکر کے ضابطے پر بات نہیں کی جاسکتی اور نہ ہی اسے کہیں چیلنج کیا جاسکتا ہے، چاہے پارلیمنٹ کے اندر ہوں یا باہر۔ڈپٹی اسپیکر کی زیر صدارت آج سندھ اسمبلی کا اجلاس جاری تھا۔ اجلاس کے دوران نماز جمعہ کا وقت آیا تو ڈپٹی اسپیکر نے نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے وقفہ ہی نہ دیا جس پر سندھ اسمبلی میں ماحول گرم ہو گیا۔ نماز کا وقفہ نہ دینےپر ایم کیو ایم کے سینئیر رکن اسمبلی سید سردار احمد بھی بول پڑے اور کہا کہ ایک سے ڈیڑھ بجے تک نماز کا وقفہ دیا جائے۔ پی ٹی آئی کے رکن اسمبلی خرم شیر زمان کا کہنا تھا کہ آپ کو علم بھی ہے کہ دو جمعہ نماز کی ادائیگی نہ کرنے سے کیا ہوتا ہے؟
جس کے بعد نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے اراکین سندھ اسمبلی اُٹھ کر باہر چلے گئے۔شہلا رضا نے کہا کہ میں نے محمد حسین سے اتنا کہا تھا کہ آپ میری ذاتیات پر جو بھی بات کر رہے ہیں مجھے اس سے سروکار نہیں، مگر میں آپ کو پارلیمنٹ کی کارروائی خراب نہیں کرنے دوں گی جس پر محمد حسین نے کہا کہ میں دیکھتا ہوں کہ یہ ایوان کیسے چلتا ہے؟ جس پر میں نے سارجنٹ ایٹ آرمز کو طلب کیا کہ محمد حسین کو پارلیمنٹ ہاؤس سے باہر بھیجیں۔
انہوںنے کہاکہ اس پورے معاملے میں افسوس کی بات یہ تھی کہ پارلیمنٹ میں موجود جتنے بھی باغیرت مرد بیٹھے تھے ان میں سے کسی ایک نے بھی کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔