کراچی (مانیٹرنگ ڈیسک) جہالت کے اندھیرے دور کرنے والی اسکول ٹیچر اور سندھ پولیس کا جوان وڈیروں کے حکم پر کاروکاری قرار دے دیے گئے دونوں جان بچانے کے لیے کراچی آگئے ہیں اور چیف جسٹس اور آئی جی سندھ سے مدد کی اپیل کررہے ہیں۔تفصیلات کے مطابق خواتین کے عالمی دن کے موقع پر کاروکاری کے فیصلے کا نیا کیس سامنے آیا ہے ۔ گاوں میں اسکول چلانے پر خانزادی نامی خاتون کو گاوں بدر کردیا گیا تھا جسے پناہ دینے کے لیے سندھ پولیس کے ریزرو اہلکار محبوب نے اس سے شادی کرلی
جس پر جرگے نے مشتعل ہوکر دونوں کو کارو کاری کرنے کا حکم صادر کردیا۔سندھ کے کالے قانون کاروکاری سے پولیس بھی محفوظ نہ رہ سکی، درخت کے نیچے بچیوں کو تعلیم دینے والی لڑکی کو گاوں سے نکالنے پر سندھ ریزرو پولیس کے اہلکار نے شادی کرلی،،، گاوں کے وڈیروں نے دونوں کو کاری قرار دے کر جان سے مارنے کا حکم دے دیا۔اس جوڑے کا کہنا ہے کہ وہ اپنی جان بچا کر کراچی بھاگ آئے ہیں اور یہاں انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار اور آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ سے مدد کی اپیل کی ہے۔میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پولیس اہلکار محبوب کا کہنا ہے کہ سندھ پولیس کا جوان ہوتے ہوئے بھی آج تک پولیس نے مدد نہیں کی وڈیرے اور خانزادی کے رشتہ دار بہت خطرناک ہیں ہمیں مار دیں گے۔محبوب نے یہ بھی کہا کہ وڈیروں نے میرے گھر اور زمینوں پر بھی قبضہ کرلیا ہے اپنی اہلیہ اور 9 ماہ کے بچیکے ساتھ روپوشی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوں۔اسکول چلانے کے جرم میں نکالے جانے والی لڑکی سے شادی کرنا میرا جرم بن گیا ہے۔دوسری جانب اسکول ٹیچر خانزادی کا کہنا ہے کہ پولیس سمیت سب کے پاس گئے لیکن کسی نے ہماری مدد نہیں کی ہماری مدد کرنے والا کوئی نہیں ہمیں انصاف اور تحفظ فراہم کیا جائے۔ خانزادی کا کہنا ہے کہ علاقے کے منتخب نمائندے کہتے ہیں کہ تمہارے مخالف وڈیروں کے سبب 5 ہزار سے زائد ووٹ ہمیں ملتے ہیں
لہذا دو ووٹوں کی وجہ سے ہم اپنے پانچ ہزار ووٹ خراب نہیں کرسکتے۔دریں اثنا آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے مبینہ طور کاروکاری قرار دیئے جانے والے جوڑے کے حوالے سے اے آروائی نیوز کی رپورٹ کا نوٹس لیتے ہوئیایس ایس پی جیکب آباد سے جامع انکوائری پولیس اقدامات پر مشتمل رپورٹ فی الفور طلب کرلی ہے انہوں نے حکم دیا ہے کہ کاروکاری قرار دیے جانے والے لڑکا اور لڑکی سمیت ان کے خاندان کے دیگر افراد کے تحفظ کے لیے تمام تراقدامات اٹھائے جائیں۔