اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) ڈارک ویب کے متعلق دعویٰ کرنے والے سینئر صحافی ڈاکٹر شاہد مسعود نے سپریم کورٹ کے باہر صحافیوں سے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ عدالت قاتل عمران کے متعلق مخصوص معاملات دیکھ رہی ہے، انہوں نے کہا کہ ڈارک ویب کے اندر غالباً اڑتالیس یا باہتر گھنٹوں کے آپشنز ہیں جس کے بعد ویڈیو ڈیلیٹ ہو جاتی ہیں، وہ سگنیچر چھوڑ جاتی ہیں اگر ایکسپرٹس ہوں تو وہ سگنیچر کے ذریعے ماضی میں ڈیلیٹ کی گئی ویڈیوز تک پہنچ جاتے ہیں۔
ایک صحافی نے ڈاکٹر شاہدمسعود سے سوال کیا کہ آپ معافی کس چیز کی مانگ رہے تھے جس کے جواب میں ڈاکٹر شاہد مسعود نے کہا کہ مجھے نہیں پتہ کہ کیا معاملہ تھا، انہوں نے کہا کہ تین آپشنز پر سزا دینے لگے تھے تو میں نے کہا کہ ایک منٹ آپ ٹھہریں کہ مجھے تو نہیں پتہ کہ کس قانون کے تحت آپ کہہ رہے ہیں۔ جس صحافی نے کہا کہ آپ معافی بھی بغیر سوچے سمجھے مانگتے ہیں اور پروگرام بھی سوچے سمجھے بغیر ہی کرتے ہیں، ڈارک ویب کے متعلق دعویٰ کرنے والے سینئر صحافی ڈاکٹر شاہد مسعود نے سپریم کورٹ کے باہر صحافیوں سے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ عدالت قاتل عمران کے متعلق مخصوص معاملات دیکھ رہی ہے، انہوں نے کہا کہ ڈارک ویب کے اندر غالباً اڑتالیس یا باہتر گھنٹوں کے آپشنز ہیں جس کے بعد ویڈیو ڈیلیٹ ہو جاتی ہیں، وہ سگنیچر چھوڑ جاتی ہیں اگر ایکسپرٹس ہوں تو وہ سگنیچر کے ذریعے ماضی میں ڈیلیٹ کی گئی ویڈیوز تک پہنچ جاتے ہیں۔ صحافی مطیع اللہ جان نے کہا کہ کس بات کی معافی مانگ رہے تھے آپ جو مسترد کر دی چیف جسٹس نے، جس ڈاکٹر شاہد مسعود نے کہا کہ چیف جسٹس صاحب نے مسترد نہیں کی بلکہ جواب مانگا ہے۔ ڈاکٹر شاہد مسعود مطیع اللہ جان کے سوال پر برہم ہو گئے، ڈاکٹر شاہد مسعود پہلے برداشت کرتے رہے پھر ان کا صبر جواب دے گیا اور وہاں سے چلے گئے۔ ڈاکٹر شاہد مسعود جانے لگے تو مطیع اللہ جان اپنے ساتھی صحافیوں کے ساتھ مل کر آوازیں لگاتے رہے۔