نامور کالم نگار رؤف طاہر اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔وہ عمران خان نہیں کہ کسی نے کان میں بات ڈال دی اور انہوں نے بغیر تحقیق میڈیا کے سامنے بیان کر دی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اس پر ماہرینِ قانون سے مشاورت کے بعد ہی کچھ کہنے کی پوزیشن میں ہوں گے اور تادم تحریر بریکنگ نیوز یہ تھی کہ مسلم لیگ(ن) نے فی الحال اس کیس میں فریق نہ بننے کا فیصلہ کیا ہے۔کسی بھی سیاستدان کی طرح میاں صاحب (اور ان کی مسلم لیگ) بھی اقتدار
کے لیے سیاست کرتے ہیں کہ سیاسی جماعت کوئی خیراتی یا تبلیغی ادارہ نہیں ہوتی۔ ہمیں یاد ہے‘ گیارہ مئی 2013ء کی انتخابی مہم کے آخری دو تین دن تھے جب عمران خان سٹیج کے لیے سیڑھی چڑھتے ہوئے حادثے کا شکار ہو گئے۔ تب نوازشریف ایک انتخابی جلسے سے خطاب کر رہے تھے‘ انہوں نے اگلے روز ملک بھر میں مسلم لیگ (ن) کی انتخابی مہم معطل کرنے کا اعلان کر دیا۔ یہ اپنے سیاسی حریف کے لیے اظہارِ خیرسگالی تھا جس کے ساتھ کبھی وہ جم خانہ میں کرکٹ کھیلا کرتے تھے۔ اپنی وزارت اعلیٰ کے دوران انہوں نے صوابدیدی اختیارات کے تحت لاہور کی سرکاری سکیموں میں سینکڑوں پلاٹ الاٹ کئے‘ ان میں زیادہ تعداد مستحقین ہی کی تھیلیکن کچھ مثالیں ”اقربا پروری‘‘ کی بھی تھیں…اور ان ”اقربا‘‘ میں عمران خان بھی تھے۔ قانونی تقاضے پورے کرنے کے لیے خان نے درخواست کے ساتھ تحریری حلف نامہ بھی دیا کہ اس کے پاس کوئی ذاتی رہائش (یا پلاٹ) نہیں۔ (زمان پارک والا گھر تب والد صاحب کے نام تھا) وزیراعلیٰ نے اپنے صوابدیدی کوٹے سے فیصل ٹائون میں ایک کنال کا پلاٹ الاٹ کر دیا (کپتان کا کہنا ہے کہ بعد میں انہوں نے اس پلاٹ کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم شوکت خانم کی نذر کر دی تھی) 1992ء کا ورلڈکپ جیتنے پر اسلام آباد
میں ملنے والا پلاٹ کپتان پر کوئی احسان نہ تھا کہ یہ پلاٹ ساری ٹیم کو ملے تھے۔ شوکت خانم ہسپتال کے لیے 15 ایکڑ سرکاری اراضی کو بھی ہم نوازشریف کا احسان نہیں سمجھتے (خود میاں صاحب بھی یہ ”احسان‘‘ نہیں جتاتے) غلام حیدر وائیں وزیراعلیٰ بنے تو انہوں نے اس میں پانچ ایکڑ کا اضافہ کر دیا۔ البتہ خان سے یہ گِلہ ضرور بنتا ہے کہ 1996ء میں انہوں نے پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد رکھی تو پہلا کام شوکت خانم کا سنگِ بنیاد
اکھاڑ پھینکنے کا تھا‘ کہ اس پر نوازشریف کا نام لکھا ہوا تھا۔ شوکت خانم کے لیے مشینری اور دیگر طبی آلات کی برآمد کے لیے ضروری سہولتوں کی فراہمی میں بھی نوازشریف حکومت نے کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی۔ایک اور واقعہ بھی یاد آیا‘ یہ محترمہ کی دوسری حکومت تھی جب (14 اپریل 1996ء کو) شوکت خانم ہسپتال میں خوفناک بم دھماکہ ہوا‘ جس میں سات افراد جاں بحق اور 60 زخمی ہو گئے تھے۔ وزیراعظم صاحبہ نے دھماکے
کی خبر سنتے ہی پشاور سے لاہور کا رخ کیا اور سیدھی شوکت خانم پہنچیں۔ ان کی آمد کی اطلاع پر خان ہسپتال سے چلے گئے۔ ان کا کہنا تھا‘ وہ تصویر بنانے آئی تھی‘ میں منافق نہیں کہ ہسپتال میں اس کا استقبال کرتا‘ مزید کہا کہ میں معاشرتی و سماجی اصلاحات کے لیے تحریک چلانا چاہتا ہوں‘ سیاسی جماعت بنانے کا کوئی ارادہ نہیں۔ البتہ قائدِ حزب اختلاف نوازشریف کی آمد پر خان ہسپتال میں ان کے خیرمقدم کے لیے موجود تھے۔ (گیارہ روز بعد25 اپریل)
کو خان نے مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی‘ دونوں کو مفاد پرستوں کے ٹولے قرار دیتے ہوئے‘ تحریک انصاف کے قیام کا اعلان کر دیا۔ بات کسی اور طرف نکل گئی‘ ہم خان کے زخمی ہونے کا ذکر کر رہے تھے‘ شہبازشریف اسی شام خان کی عیادت کے لیے ہسپتال پہنچے لیکن اذنِ باریابی سے محروم رہے۔ یہی سلوک پاکستان میں سعودی سفیر کے ساتھ ہوا کہ خان کے خیال میں انتخابات میں سعودیوں کی ہمدردیاں نوازشریف کے ساتھ تھیں۔
انتخابات کے فوراً بعد نوازشریف خان کی خبرگیری کے لیے ہسپتال پہنچے‘ یہ ملاقات خاصے خوشگوار ماحول میں ہوئی۔ نوازشریف نے ہنستے ہوئے کہا‘ خان! جلدی سے ٹھیک ہو جائو‘ پھر ہم فرینڈلی میچ کھیلیں گے۔ رہ رہ کے پرانی باتیں یاد آ رہی ہیں‘ 12 اکتوبر 1999ء کی فوجی کارروائی کا خیرمقدم کرنے والوں میں خان بھی پیش پیش تھے‘ ڈکٹیٹر کے ریفرنڈم کی بھی بھرپور حمایت کی… نائن الیون کے بعد ڈکٹیٹر کی امریکہ نواز
پالیسی کے حامی بھی رہے۔ لیکن اکتوبر 2002ء کے انتخابات ان کے لیے مایوسی لائے۔ ڈکٹیٹر نے خان پر تکیہ کرنے کی بجائے اپنی قاف لیگ بنا لی تھی۔ خان شاذونادر ہی پارلیمنٹ کا رُخ کرتے‘ جب بھی آتے‘ ان کے ہاتھ میں ایک فائل ہوتی ‘ جس میں ان قرضوں کی تفصیل ہوتی جو ان کے بقول گجرات کے چوہدریوں نے ڈکٹیٹر کی نظرِعنایت سے معاف کرائے تھے۔ ان ہی دنوں شہبازشریف کا شکریہ ادا کرنے خان سرور محل جدہ بھی گئے
(چھوٹے میاں صاحب نے شوکت خانم کے لیے 25 لاکھ روپے بھجوائے تھے) لندن میں نوازشریف کی طلب کردہ آل پارٹیز کانفرنس میں بھی خان کی شرکت پُرجوش تھی۔ اس موقع پر اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد (آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ) بھی وجود میں آیا۔ ڈکٹیٹر کے ساتھ این آر او کی تیاریوں میں مصروف پی پی پی اس اتحاد کا حصہ نہ تھیصحت یابی کے بعد عمران خاں پارلیمنٹ آئے‘ تو ان کا خیرمقدم کرنے والوں میں مسلم لیگ (ن) بھی تھی۔ 12
مارچ 2014ء کووزیراعظم نوازشریف بنی گالہ تشریف لے گئے‘ شام کی چائے کے لیے یہ دعوت خود خان نے دی تھی۔ بنی گالہ کے دروازے پر مہمان کا خیرمقدم کرتے ہوئے خان کی تصویر پختونوں کی روایتی وضعداری اور انکساری کا شاہکار تھی۔ اس موقعہ پر خان کی ساری ”کابینہ‘‘ بھی موجود تھی۔ یہ رکھ رکھائو کے بغیر بے تکلفانہ ماحول میں ہونے والی ملاقات تھی۔ میاں صاحب اپنے ملازموں کو بھی صیغہ واحد میں شاذ ہی مخاطب کرتے ہوں‘
لیکن یہاں جم خانہ میں کرکٹ کے دنوں کی بے تکلفی عود کر آئی تھی۔ میاں صاحب خان کو ”تم‘‘ کے ساتھ مخاطب کر رہے تھے۔ ایک موقع پر خان کی پشاوری چپل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مزاحاً کہا‘ تمہیں یہ طالبان نے تحفے میں دی ہوگی۔ کہا جاتا ہے‘ اس ملاقات میں میانوالی میں نمل یونیورسٹی کے لیے سرکاری زمین کے معاملے پر بھی بات ہوئی…ایک اور فائدہ یہ ہوا کہ بنی گالہ پہاڑی پر خان کے 300 کنال کے محل تک آنے والی سڑک کی بھی سنی گئی۔ اب یہ موٹروے کو بھی شرماتی ہے۔