اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)پاکستان کے موقر قومی اخبار روزنامہ امت کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ عاصمہ جہانگیر کی تدفین میں اس لئے دیر ہوئی اور آج دوسرے دن ان کی تدفین کی جائے گی کیونکہ ان کی بیٹی منیزے جہانگیر اور ان کے غیر ملکی عیسائی داماد ہیری لندن سے وطن نہیں پہنچے تھے۔ اخبار کی رپورٹ میں عاصمہ جہانگیر کے بارے میں الزام عائد کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ انسانی حقوق
کی آڑ میں عاصمہ جہانگیر ساری عمر پاکستان میں اسلام و نظریہ پاکستان کے خلاف سرگرم رہیں عاصمہ جہانگیر اکھنڈ بھارت کے تصور کو بڑھانے کیلئے بھارتی یوم آزادی پر واہگہ جا کر شمعیں جلانے کی رسم کا حصہ بنی رہیں۔ ہزاروں مسلمانوں کے قتل میں ملوث انتہا پسند ہندو دہشتگرد لیڈر بال ٹھاکرے سے ان کی ملاقاتیں بھی بھارتی میڈیا کی زینت بنتی رہیں۔ ملاقات کیلئے بطور خاص نارنجی رنگ کا لباس پہن کر گئیں جیسے ہندو انتہا پسند تنظیم شیو سینا کا لیڈر پہنتا تھا۔ عاصمہ جہانگیر دورہ بھارت کے دوران ماتھے پر تلک لگانے کا خصوصی اہتمام کرتیں۔ بال ٹھاکرے کے ساتھ ان کی ایک اور مشابہت یہ رہی کہ وہ بھی اسی لہجے میں پاکستانی اداروں کو برا بھلا کہتیں جس لہجے میں بال ٹھاکرے بھارتی مسلمانوں کو نشانہ بناتا تھا۔ ممبئی حملوں کے حوالے سے عاصمہ جہانگیر نے پاکستان اور پاکستانی اداروں کے خلاف وہی موقف اپنا جو بھارت کا تھا۔ عاصمہ جہانگیر ملک توڑنے کیلئے اپنے والد ملک غلام جیلانی کی خدمات کا بنگلہ دیش سے حال ہی میں ایوارڈ لینے اس وقت بنگلہ دیش گئیں جب بھارت نواز حسینہ واجد پاکستان توڑنے میں رکاوٹ بننے والے سیاسی قائدین کو پھانسیاں دے رہی تھیں۔ اخبار کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کشمیر کے مظلوم مسلمان بھی ان کی کئی دہائیوں تک توجہ نہ پا سکے۔ ملک کے مذہبی حلقے و اہم قومی ادارے ہمیشہ ان کے نشانے پر رہے
البتہ وہ قادیانیوں کی سرپرست بنی رہیں۔ ان کے مخصوص خیالات اور فکر کو معروف میڈیا ہائوس نے ہمیشہ آگے بڑھانے کی کوشش کی۔ ایک اہم عدالتی شخصیت نے کہا کہ کاش عاصمہ جہانگیر کو اسلام مخالف روئیے سے رجوع اور غلط عقائد سے توبہ نصیب ہو جاتی۔ اخبار نے سفارتی حلقوں کے حوالے سے ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ سپریم کورٹ بار کے
صدارتی الیکشن سے قبل بھارتی ہائی کمشنر نے لاہور کے ایک بڑے ہوٹل میں بڑے ڈنر کا اہتمام کر کے وکلا تحریک میں قائدانہ کردار ادا کرنے والوں کو عاصمہ کے حق میں ووٹ استعمال کرنے کیلئے آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ ان کی جیت میں بعض دوسرے سفارتخانوں کی خواہشات کا دخل بھی ریا۔ ذرائع کے مطابق عاصمہ جہانگیر بالعموم اپنے قادیانی ہونے یا نہ ہونے کے سوال پر
طرح دے جاتی تھیں تاہم بعض نجی محفلوں میں یہ موقف بھی اختیار کرتیں کہ ہاں یہ درست ہے کہ میرا شوہر قادیانی ہے۔ ایسی ہی ایک نجی محفل میں عاصمہ کا کہنا تھا کہ وہ قادیانیوں کو کافر قرار دیئے جانے سے پہلے شادی کر چکی تھیں۔ واضح رہے کہ عاصمہ جہانگیر کی شادی اور قادیانیوں کو کافر قرار دینے کے پارلیمانی فیصلہ ماننے کو کبھی تیار نہ ہوئیں۔ پارلیمنٹ کے سپریم ہونے
کا جھنڈا اٹھائے رکھنے کے باوجود عاصمہ کا یہ بیان سامنے آچکا ہے کہ قومی اسمبلی کو قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا حق نہیں۔ اخبار سے گفتگو کرتے ہوئے جسٹس ریٹائرڈ میاں نذیر اختر کا کہنا تھا کہ یہ عذر بے معنی ہے کہ عاصمہ کی شادی 1974کے پارلیمانی فیصلے سے پہلے ہوئی تھی ۔ نکاح پہلے بھی ہوا تھا تو پارلیمنٹ کا فیصلہ آنے کے بعد ایک مسلمان کا قادیانی سے نکاح باقی نہیں رہ سکتا تھا۔
اسے کیسے اتفاق مانا جا سکتا ہے کہ آپ ہر کیس قادیانیوں کے حق میں لڑیں۔ عاصمہ کے والد ملک غلام جیلانی کے بارے میں تاثر یہی تھا کہ وہ سی آئی کا ایجنٹ ہے۔ ملک غلام جیلانی کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ احمدیوں کے لاہور گروہ میں ہے۔ کشمیریوں کے ساتھ ظلم پر کئی عشروں تک ان کی این جی او نے کوئی آواز نہ اٹھائی۔ ریمنڈ ڈیوس نے لاہور میں 2بے گناہ نوجوان مارے ان نوجوانوں
کیلئے انسانی حقوق کمیشن نے کیا کیا؟ پاکستانی طلبہ اور مزدوروں کے حقوق کیلئے بھی ایچ آر سی پی نے کوئی کردار ادا نہیں کیا۔