اسلام آباد(آن لائن)اسلام آباد ہائیکورٹ میں کم عمر عیسائی لڑکی سے شادی کے معاملے پر عدالت نے بچی کو والدین کے حوالے کرنے کا حکم دیتے ہوئے کیس فیملی کورٹ کو بھیج دیا۔جمعرات کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیر صدیقی کی عدالت میں ساڑھے بارہ سالہ عیسائی لڑکی کی مسلمان لڑکے کے ساتھ شادی کے کیس کی سماعت ہوئی۔دوران سماعت لڑکے نے عدالت میں بیان دیا کہ لڑکی مسلمان ہوچکی ہے۔
جس پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ لڑکی عدالت کو مسلمان ہونے کے حوالے سے مطمئن نہ کرسکی ہے اسی وجہ سے این جی اوز اسلام کو بدنام کرتی ہیں،بچی کیا مسلمان ہوئی ہے جس کو ہمارے نبی کا بھی پتہ ہی نہیں،وکیل درخواست گزار نے عدالت میں دلائل دیئے کہ بچی بالغ ہوتی تو ہمارا اعتراض نہیں تھا،عدالت نے لڑکے کے والدین سے بھی مکالمہ کیا اور کہا آپ والدین اس جرم میں برابر کے شریک ہیں،عدالت نے مذید ریمارکس دیئے کہ پاکستان میں اقلیتوں کے بھی اتنے ہی حقوق ہیں جتنے مسلمانوں کے ہیں، ایسے عمل سے اسلام کی بدنامی ہوتی ہے، بارہ سال کی بچی کو ویلنٹائن ڈے کا تو پتہ ہے عید الاضحی کا نہیں، عدالت نے بچی والدین کے حوالے کرنے کا حکم دیتے ہوئے کیس فیملی کورٹ بھیج دیا۔