اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)نقیب اللہ قتل کیس میں مفرور معطل ایس ایس پی رائو انوار جو کراچی کے ضلع ملیر میں خوف و دہشت کی علامت بنا ہوا تھا پولیس ان کائونٹرز کی وجہ سے اپنی خاص شہرت رکھتا تھا، سیاسی اثر و رسوخ کا حامل رائو انوار اس قدر طاقتور تھا کہ کھڑے کھڑے ڈی آئی جی تک کی ٹرانسفر کروا دیا کرتا تھا۔ رائو انوار کئی غیر قانونی دھندوں میں بھی ملوث تھا اور اس نے
بدنام زمانہ پولیس اہلکاروں کی ایک ٹیم بھی چن چن کر ترتیب دے رکھی تھی جو اس کے غیر قانونی امور کو سر انجام دیا کرتی تھی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق رائو انوار اغوا برائے تاوان، ریتی بجری اور دیگر کئی غیر قانونی کاموں میں ملوث تھا۔ رائو انوار سے متعلق میڈیا رپورٹس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس نے 7سال کے دوران متعدد پولیس مقابلوں میں 444افراد کو ہلاک کیا۔ رائو انوار اور نقیب اللہ محسود کے قتل کے حوالے سے نجی ٹی وی ایکسپریس کی دل دہلا دینے والی رپورٹ سامنے آئی ہے جس میں نقیب اللہ قتل کیس کے ان پہلوئوں کو سامنے لایا گیا ہے جن سے عام افراد واقف نہیں تھے۔ رپورٹ کے مطابق نقیب اللہ قتل کیس کی روداد ابو الحسن اصفہانی روڈ کے ایک ہوٹل سے شروع ہوتی ہے جہاں 3جنوری کے دن نقیب اللہ محسود اپنے دو ساتھیوں حضرت علی اور قاسم کے ہمراہ موجود تھا ۔ رائو انوار کی ٹیم نے نقیب اللہ ، حضرت علی اور قاسم کو اسی ہوٹل سے اٹھایا۔ نقیب اللہ کو اٹھانے کے بعد پولیس ان کے ٹھکانے مسلسل بدلتی رہی، خوبرو اور وجیہہ نقیب اللہ 10روز تک پولیس کی تحویل میں رہا۔ سب سے پہلے ان تینوں دوستوں کو سچل تھانے کی عباس ٹائون چوکی میں لایا گیا اور پھر اس کے بعد پولیس نے اپنا دوسرا پڑائو نیو سبزی منڈی کی چوکی کو بنایا مگر پولیس کو پھر بھی اطمینان نہ ہوا اور اس کے بعد ان کو کسی نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا، پولیس کی تیسری
جگہ کا علم نقیب اللہ قتل کیس کی تحقیقات کرنے والی کمیٹی کو بھی نہ ہو سکا، 3جنوری سے 6جنوری کی رات آگئی، پولیس نے حضرت علی اور قاسم کی آنکھوں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر انہیں سپر ہائی وے پر چھوڑ دیا مگر تین روز کی حراست ان کیلئے آسان نہیں تھی کیونکہ اس دوران ان پر ظالم پولیس اہلکاروں نے تشدد کے نت نئے طریقے آزمائے جس کی وجہ سے ان کیلئے چلنا بھی دشوار ہو گیا تھا،
لیکن وہ خوش قسمت رہے، ان پر تشدد ہوا ، زبان کھولنے کی صورت میں دھمکیاں بھی ملیں مگر ان کی جان بچ گئی، پھر یہی لوگ رائو انوار کے جعلی مقابلے کیس میں عینی شاہدبن گئے کیونکہ قاسم اور حضرت علی اگر سامنے نہ آتے تو مقابلے کا بھانڈا کبھی نہ پھوٹتا۔ 13جنوری کا دن آن پہنچا ، شاہ لطیف ٹائون عثمان خاص ویلی گوٹھ کے ایک بند مکان میں نقیب اللہ سمیت چار افراد کو پولیس نے
بیدردی سے گولیاں مار کر جعلی پولیس مقابلے میں ہلاک کر دیا مگر اس جھوٹی کہانی کی کڑیاں اس قدر کمزور ثابت ہوئیں کہ تحقیقاتی کمیٹی نے 24گھنٹے میں ہی اس مقابلے کو جعلی قرار دیدیا تھا، مبینہ پولیس مقابلے میں شامل پولیس پارٹی اور جیل کے قیدی قاری احسان کے بیان کو بھی انکوائری کمیٹی نے اپنی رپورٹ کا حصہ بنایا،قیدی قاری احسان کے مطابق اسے جس نقیب اللہ کی تصویر
دکھائی گئی اسے وہ نہیں جانتاجبکہ رائو انوار نے دعویٰ کیا تھا کہ مقابلے میں ہلاک نقیب اللہ قاری احسان کے گروپ میں شامل تھا، ملزمان کا ٹھکانہ قرار دئیے گئے مکان سے گولیوں کے نشانان کا جائزہ لینے کے بعد انکوائری کمیٹی نے موبائل فون فرانزک اور سی ڈی آر کے ذریعے مقابلے میں رائو انوار، سب انسپکٹر امان اللہ مروت، اے ایس آئی خیر محمد، سب انسپکٹر محمد انار، اے ایس آئی
گدا حسین، ایس آئی شعیب ، ہیڈکانسٹیبل فیصل محمود، ہیڈکانسٹیبل محسن عباس، کانسٹیبل راجہ شمیم کی مقابلے کے مقام پر موجودگی کی تصدیق کی۔ نجی ٹی وی ایکسپریس نیوز کی رپورٹ کے مطابق رائو انوار نے ہر سال پولیس مقابلوں کی سنچری بنائی،7سال میں 745پولیس مقابلے کئے اور 444مبینہ ملزمان کو ہلاک کیا مگر جعلی پولیس مقابلے میں نقیب اللہ محسود کی ہلاکت نے رائو انوار کو قانون کے شکنجےمیں پھنسا دیا،