14دنوں میں قوم کے مجرم کو بے نقاب کر دینا کسی کارنامے سے کم نہیں،امریکہ ٹیکنالوجی ہونے کے باوجود 22 سال سے نو سالہ بچی کا قاتل نہیں پکڑ سکا

1  فروری‬‮  2018

لاہور (پ ر)13جنوری 1996 آر لنگٹن ٹیکساس،امریکہ،9سالہ امبر ہیگرمین کو اس کے گھر سے کچھ فاصلے پہ ایک نالے میں مردہ پایا گیا۔وہ امبر جس کو چار دن پہلے اپنے بھائی کے ساتھ گھر کے پاس کھیلتے ہوئے اغواء کر لیا گیا اور یوں ایک 9سالہ بچی کے بچپن کو چکنا چور کر کے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔امریکن پولیس جو کہ دنیا بھر میں ٹیکنالوجی اور قابلیت کے لحاظ سے صف اول کی پولیس جانی جاتی ہے آج 22سال گزر جانے کے باوجود بھی امبر کے قاتلوں تک پہنچنے میں ناکام دکھائی دیتی ہے۔

بعض مرتبہ تمام تر سہولیات ہونے،مشینری ہونے کے باوجود بھی ایک قاتل کو پکڑنا نا ممکن امر بن جاتا ہے لیکن قصور میں ہونیوالے واقعے کے نتائج اس کے برعکس ہیں۔ہماری پیاری بیٹی زینب کے ساتھ بھی ایسا ہی دلخراش واقعہ رونما ہو ا۔انسا نیت کی ایسی دردناک موت پر قوم دل تھام کے رہ گئی ہر ایک کے دل کی یہی پکار تھی کہ زینب کے قاتل کو پکڑ کر اسے اس جرم کی عبرتناک سزا دی جائے۔ حکومت پنجاب بھی اس مسئلے پر رات دن متحرک نظر آئی اور ساری پولیس مشینری اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مشترکہ کوششوں سے حکومت ننھی شہید زینب کے قاتل کو پکڑنے میں کامیاب ہوئی۔ وزیر اعلیٰ کی جانب سے زینب کے قاتل کو پکڑنے کا وعدہ محض 14دن کے اندر خدا کی مہربانی اور قوم کی دعاؤں سے پورا ہوا۔ جس میں تمام اداروں اورایجنسیز کی خدمات شامل رہیں۔ خدا نے ان کاوشوں اور لگن پر انہیں ملک و قوم کے سامنے سرخرو کیا۔ گویا ان لوگوں نے وزیر اعلیٰ کے احکامات پر لبیک کہتے ہوئے اور اپنا فرض کی ادا ئیگی کرتے ہوئے اس درندے کو عوام اور قانون کے سامنے لا کھڑا کیا۔ صرف 14دنوں میں مجرم کو بے نقاب کر دینا ایک بہترین کارنامے سے کم نہ تھا۔لیکن یہاں چند باتیں قابل غور ہیں جن کا تذکرہ نہایت ضروری ہے۔۔کسی بھی ملک یاصوبے یا شہر میں ایسے جرم کا ارتکاب ہوجانا یا کسی بھی فرد واحد کی جانب سے ایسی گھناؤنی حرکت کا وارد ہونا لمحہ فکریہ ہے اوریقیناً قابل مذمت امر ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ قانون نافذ کرنے والوں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان بھی ہے۔

ہم سب جانتے ہیں کہ ایسے دلسوز واقعات پاکستان سمیت دنیا بھر میں انسانی شکل میں چھپے درندوں کی جانب سے وقوع پزیر ہوتے رہتے ہیں جو یقیناانسانیت کے منہ پر طمانچہ سے کم نہیں!دنیا ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جہاں ان درندوں کا جرم کے بعدآج تک پتہ نہیں چل سکا۔۔لیکن یہ بھیڑیے ہمارے معاشرے میں انسانی شکل میں موجود ضرور ہیں۔۔جس کی ایک مثال 2005میں سامنے آئی جب ساؤتھرن افریقہ کے ایک ملک نمیبیا میں ایک لڑکی کی سڑک کنارے سر کٹی لاش ملی۔ جنیتا مبولہ کے قتل کی واردات کو دو ماہ قبل ہونی والی ایک لڑکی کے قتل کی واردات سے جوڑا گیا جو بھی بالکل ایسے ہی قتل ہوئی تھی

اس واقعے کو بعد ازاں ایسے ہی تین اور واقعات سے جوڑا گیا جو اس قاتل کے ایک سیریل کلر ہونے کی نشاندہی کرتا تھا لیکن پولیس کی ہر ممکنہ کوشش کے باوجود جنیتا کے قاتل کا 13سال گرز جانے کے بعد بھی پتہ نہ چل سکا۔۔اسی طرح کی واردات میری لینڈ ایریزونا میں وارد ہوئی جب ایک سیریل کلر نے کچھ ہی دنوں میں سات افراد کو گولیوں کا نشانہ بنایا۔ ایک ہی طرح کی سات وارداتوں سے مجرم کے سیریل کلر ہونے کی تصدیق ہوئی۔بین الاقوامی میڈیا میں اس کیس کو بہت اچھالا بھی گیا مگر آج تک اس قاتل کا کو ئی پتہ نہ چلایا جا سکا۔قصہ مختصر کے ایسے لوگوں کا معاشرے میں پایا جانا ایک افسوسناک امر تو ہے لیکن ایسے لوگوں کو ان کے جرم کے بعد پکڑ کر قوم کے سامنے لانا اور سزا کے لئے قانون کے حوالے کرنا یہ بھی ہر گز کوئی چھوٹی بات نہیں۔

جس طرح سب اداروں نے دل جمعی اور آہنی ارادے سے کام کیا جس طرح فرنزک لیب کے اہلکاروں نے رسپانس دیا اور 1100سے زائدافراد کے DNAسمپلز اکٹھے کئے اس پر انہیں جتنابھی سراہا جائے کم ہے۔چاہے ہم کچھ بھی سوچ رکھتے ہوں، کسی بھی شہر سے تعلق ہو یا کسی بھی سیاسی پارٹی کے چاہنے والے ہوں، ہم بحیثیت ایک درد رکھنے والے پاکستانی اور اس سے بھی بڑھ کے ایک انسان ہونے کے ناطے زینب کے قاتل کو سزا پاتا دیکھنا تو چاہتے تھے نا۔۔جو کہ صرف تب ہی ممکن تھا جب آپ اس درندے کو پکڑ پاتے۔ یہاں اس بات کا کریڈٹ ہمیں اپنی لاء انفورسمنٹ ایجنسیز کو دینا ہو گا۔

جس طرح مشترکہ کاوشوں اور رات دن کی تگ و دو سے اس سفاک قاتل کو چودہ دنوں کے اندرپکڑا گیا وہ قابل تحسین ہے۔ہمارے نیوز چینلز اخبارات جس طرح مجرم کے پکڑے جانے سے پہلے اس بات کو ہر سطح پر اجاگر کرتے ہے جو کہ خوش آئند بھی تھا کہ ایسے ایشوکو اٹھایا جاتا۔۔ لیکن اسی طرح کا اقدام مجرم کے پکڑے جانے کے بعد بھی ہونا چاہیے تھاجیسا کارنامہ ان اہلکاروں نے سر انجام دیا۔ ہمارا بحیثیت ایک قوم یہ فرض بنتا ہے کہ اگر کوئی بھی اچھا کام کر رہا ہے تو محض تنقید برائے تنقید کی روایت کو توڑتے ہوئے اپنا قومی فریضہ سمجھتے ہوئے اسے سراہنے کی ریت اپنائیں تا کہ وہ ادارہ یا شخص بہتر سے بہترین کی راہ اختیار کرتے ہوئے اپنا اور ملک کا نام روشن کرے اور آئندہ آنے والوں کے لئے ایک زندہ مثال بن کر ابھرے۔

موضوعات:



کالم



کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟


فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…