منگل‬‮ ، 01 اپریل‬‮ 2025 

قصور کی کمسن بچیوں کا سیریل کلر عمران کیا بچ کر نکل جائے گا ملزم کی ایسی چالاکی کہ پولیس سر پکڑ کر بیٹھ گئی،ماں نے گرفتاری میں مدد انسانی ہمدردی کیلئے نہیں بلکہ کیوں کی؟ تہلکہ خیز انکشافات

datetime 1  فروری‬‮  2018
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)پاکستان کے موقر قومی اخبار روزنامہ نائنٹی ٹو نیوز کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ قصور کی زینب اور دیگر بچیوں کے قاتل عمران نے مجسٹریٹ کے سامنے اقبالی بیان دینے سے انکار کر دیا ہے اور پولیس کے پاس سوائے ڈی این اے کے علاوہ کوئی شہادت موجود نہیں جس کی وجہ پولیس کے افسران تذبذب کا شکار ہیں۔ رپورٹ کے مطابق زینب قتل کیس

کے ملزم عمران علی کے جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے اقبال بیان دینے سے مبینہ طور پر انکار پر تفتیشی ٹیم تذبذب کا شکار ہے کیونکہ پولیس کے پاس ڈی این اے کے سوا اس کیس میں کوئی تائیدی شہادت موجود نہیں۔ ملزم نے دوران تفتیش اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کے واقعات کو جرم کی بنیادی وجہ بتایا ہے۔ پولیس کے ایک سینئر افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ قتل و ریپ ملزم کا انفرادی فعل تھا۔ ملزم نے دوران تفتیش مبینہ انکشاف کیا کہ وہ خاندانی افراد کے ہاتھوں بھی زیادتی کا شکار ہوتا رہا۔ ملزم نے مزید انکشاف کیا کہ اس کے خواتین کے ساتھ بھی تعلقات تھے۔ سینئر افسر نے مزید بتایا کہ اس کو پولیس نے دو دفعہ تفتیش کیلئے حوالات میں بند کیا لیکن بیماری کا بہانہ بنانے پر پولیس نے اس کے مرجانے کا خدشہ ہونے پر اس کو چھوڑ دیا تھا۔ گرفتاری کے بارے میں سینئر افسر نے بتایا کہ زینب کی نعش کی برآمدگی کے بعد جب پنجاب حکومت نے ملزم کی گرفتاری کیلئے ایک کروڑ انعام کا اشتہار دیا تو ملزم کے حقیقی چچا نے شک اور ملزم کا ماضی دیکھتے ہوئے اس کی والدہ سے بات کی کہ انعام کی خاطر اس کو گرفتار کروا دیتے ہیں پہلے تو ماں مان گئی لیکن بعد میں اس نے انکار کردیا جس کا ملزم کو پتہ چلا تو گرفتاری سے بچنے کیلئے وہ پاک پتن چلا گیا تھا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ زینب کے والد نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے ملزم کو گرفتار کرایا جس

میں صداقت نہیں۔ ملزم کو ڈی این اے مثبت آنے پر پکڑا گیا، انعام کی رقم لینے کیلئے تمام لوگ اپنےاپنے دعوے کر رہے ہیں، ملزم کریمنل ذہن کا مالک ہے، یہ درندہ اپنی ہوس کیلئے چھوٹی بچیوں کا انتخاب کرتا تھا۔ ملزم کا کسی مافیا یا گینگ سے ابھی تک کوئی تعلق ثابت نہیں ہو سکا۔ ماہر قانون دان صفدر شاہین پیرزادہ نے بتایا کہ پولیس کو دوران ریمانڈ ملزم کا جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے

اقبالی بیان زیر دفعہ 164ضابطہ فوجداری کے تحت ریکارڈ کرانا ہوتا ہے جس کی کیس میں سزا دینے کیلئے قانونی حیثیت ہوتی ہے ۔ آٹھ دن گزرنے کے بعد اگر پولیس تفتیش کے دوران ملزم کااعترافی بیان ریکارڈ نہیں کرا سکی تو اس کا مطلب ہے کہ ملزم چالاک اور تفتیشی ٹیم کو چکر دیتا ہے، پولیس کے سامنے دئیے اقبالی بیان کو عدالت میں بطور شہادت استعمال نہیں کیا جا سکتا جس پر سزا یا جزا دی جا سکے۔

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



جنرل عاصم منیر کی ہارڈ سٹیٹ


میں جوں ہی سڑک کی دوسری سائیڈ پر پہنچا‘ مجھے…

فنگر پرنٹس کی کہانی۔۔ محسن نقوی کے لیے

میرے والد انتقال سے قبل اپنے گائوں میں 17 کنال…

نارمل معاشرے کا متلاشی پاکستان

’’اوئے پنڈی وال‘ کدھر جل سیں‘‘ میں نے گھبرا…

آپ کی امداد کے مستحق دو مزید ادارے

یہ2006ء کی انگلینڈ کی ایک سرد شام تھی‘پارک میںایک…

بلوچستان میں کیا ہو رہا ہے (دوسرا حصہ)

بلوچستان کے موجودہ حالات سمجھنے کے لیے ہمیں 1971ء…

بلوچستان میں کیا ہو رہا ہے؟ (پہلا حصہ)

قیام پاکستان کے وقت بلوچستان پانچ آزاد ریاستوں…

اچھی زندگی

’’چلیں آپ بیڈ پر لیٹ جائیں‘ انجیکشن کا وقت ہو…

سنبھلنے کے علاوہ

’’میں خانہ کعبہ کے سامنے کھڑا تھا اور وہ مجھے…

ہم سیاحت کیسے بڑھا سکتے ہیں؟

میرے پاس چند دن قبل ازبکستان کے سفیر اپنے سٹاف…

تیسری عالمی جنگ تیار(دوسرا حصہ)

ولادی میر زیلنسکی کی بدتمیزی کی دوسری وجہ اس…

تیسری عالمی جنگ تیار

سرونٹ آف دی پیپل کا پہلا سیزن 2015ء میں یوکرائن…