اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)قصور میں 12بچیاں زیادتی کے بعد قتل کر دی گئیں ، ان میں ایک بچی ایمان فاطمہ بھی تھی جس کے قتل کےالزام میں پولیس نے ایک ملزم کو پکڑا اور پھر اس کی پولیس مقابلے میں ہلاکت کی خبر میڈیا پر سامنے آئی، ہلاک ہونے والے نوجوان کا مدثر تھا۔ ایمان فاطمہ اپنے ایک ساڑھے چھ سالہ کزن کے ہمراہ دکان سے چیز لینے کیلئے گئی جس کےبعد اس کے گم ہونے
اور بعدازاں اس کی لاش ملنے پر انکشاف ہوا ہے کہ ننھی بچی کو جنسی درندگی کے بعد قتل کر دیا گیا تھا۔ اہل خانہ نے ایمان فاطمہ کی لاش سڑک پر رکھ کر احتجاج شروع کر دیا اور روڈ بلاک کر دی تھی۔ جس کے بعد پولیس کی جانب سے قاتل کو پولیس مقابلے میں ہلاک کئے جانے کی اطلاع پر اہل خانہ نے روڈ پر احتجاج ختم کردیا تھا۔ آج جب قصور کی زینب کا قاتل عمران پولیس کے ہتھے چڑھ چکا ہے تو انکشاف ہوا ہے کہ زینب سمیت عمران 8بچیوں کا قاتل ہے جس نے انہیں جنسی زیادتی کے بعد قتل کیا تھا اور اس کا ڈی این اے بھی میچ ہو چکا ہے۔ قصور پولیس بچیوں کے لاشیں ملنے کے بعد اب تک 5بندوں کو قاتل قرار دیکر پولیس مقابلوں میں ہلاک کر چکی ہے۔ ایمان فاطمہ کے والد نے نجی ٹی وی رپورٹر سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا جب میری بچی کی لاش ملی تو میں اور اہل محلہ سمیت میرے خاندان کے افراد نے روڈ بلاک کر کے احتجاج شروع کر دیا تھا۔ پولیس نے کیس کی تفتیش شروع کی اور اس دوران قصور پولیس کے ایک ڈی ایس پی نے اس سے چند سوالات کئے تھے اس نے مجھ سے پوچھا کہ بچی جب چیز لینے دکان پر گئی تواس کے ساتھ اور کون تھا جس پر ہم نے بتایا کہ اس کا ایک کزن جس کی عمر ساڑھے چھ سال ہے اس کے ساتھ دکان پر چیز لینے گیا تھا۔ ڈی ایس پی نے میرے بھتیجے جس کی عمر ساڑھے چھ سال ہے سے اس جگہ سے متعلق پوچھا کہ ایمان فاطمہ کہاں گم ہوئی
جس پر بچہ انہیں ساتھ موجود ایک گلی میں لے گیا جہاں ایک مکان کی سیڑھی کی نشاندہی کرتے ہوئے اس نے پولیس کو بتایا کہ ایمان فاطمہ کو ایک بندہ یہاں سیڑھیوں سے اوپر لے گیا تھا جس پر پولیس نے پتہ کروایا کہ یہ مکان کس کا ہے جس پر وہاں مدثر کو بھی بلوا لیا گیا اور مدثر کو میرے بھتیجے نے شناخت کر لیا کہ یہ وہی شخص ہے جو ایمان فاطمہ کو لے گیا تھا مزید تسلی کیلئے
مدثر کو الگ کھڑا کر دیا گیا اور پولیس نے جب دوبارہ بچے سے دریافت کیا کہ وہ کون شخص تھا تو اس نے دوبارہ مدثر کی نشاندہی کی جس پر پولیس مدثر کو تھانے لے گئی۔ کچھ دیر بعد روڈ پر جہاں میں ، اہل محلہ اور میرے اہل خانہ احتجاج کر رہے تھے وہاں میرے بھائیوں نے آکر مجھے بتایا کہ ملزم مدثر نے گناہ قبول کر لیا آپ احتجاج ختم کر دیں ۔ کچھ دیر بعد پولیس مجھے تھانے لے گئی
جہاں مدثر موجود تھا جبکہ ڈی پی او علی ناصر رضوی بھی موجود تھے جو مجھ سے گلے ملے اور اس دوران رو پڑے اور میں بھی رو رہا تھا۔ علی ناصر رضوی نے مجھے کہا کہ میری بیٹی کا نام بھی ایمان فاطمہ ہے اور آپ کی بیٹی ایمان فاطمہ بھی میری بیٹی ہے آپ کو انصاف ضرور ملے گا۔ مجھے مدثر سے ملوایا گیا جہاں اس نے اپنے گناہ کا اعتراف کرتے ہوئے مجھ سے معافی مانگی
مگر میں اٹھ کر کمرے سے کچھ کہے بغیر باہر نکل آیا۔ رات کے وقت اطلاع ملی کہ پولیس اسے جائے واردات کی نشاندہی کیلئے جب لے کر جا رہی تھی تو بقول پولیس کے اس نے بھاگنے کی کوشش کی جس پرپولیس نے فائرنگ کردی جس کی زد میں آکر وہ ہلاک ہو گیا تھا۔