سرگودھا (مانیٹرنگ ڈیسک) بھلوال پولیس نے محنت کش کے انڈے فروخت کرنے والے بچے کو زیادتی کے بعد قتل کرنے والے اصل ملزمان کو گرفتار کر لیا جنہوں نے پولیس کو بیان بھی ریکارڈ کروا دیا۔ بھلوال کے علاقہ میں محنت کش محمد نذیر کا بیٹا علی رضا انڈے فروخت کرکے اپنے والد کا ہاتھ بٹاتا تھا دو ماہ قبل جب 11 سالہ علی رضا رات کے وقت انڈے فروخت کرنے کے لیے گیا تو اوباش نوجوانوں نے اسے پکڑا اور ویرانے میں لیجا کر زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد اسے قتل کر دیا
اور نعش نہر کنارے کھیتوں میں پھینک دی تھی ملزمان کی عدم گرفتاری پر اس کے باپ نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کے جلسہ کوٹمومن میں ملزمان کی عدم گرفتاری پر احتجاج کیا جس کے بعد وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف جب کوٹمومن آئے تو انھوں نے اس واقعہ کا نوٹس لیااور پولیس کو ملزمان کی گرفتاری کا ٹاسک دیا۔جس کے بعد پولیس متحرک ہوئی تو پولیس نے زیادتی کے بعد قتل ہونے والے علی رضا کے اصل قاتلوں کو گرفتار کر لیا۔ جن سے ابتدائی تفتیش میں ملزم نے اعتراف کیا ہے کہ اس نتیجے کے ساتھ زیادتی کی جب بچے نے کہا کہ اسے پہچان لیا ہے تو اس نے گلے میں پھندا ڈال کر اسے قتل کر دیا اور نعش نہر کنارے کھیتوں میں پھینک کر فرار ہو گیا اسکے ساتھ دیگر ملزمان بھی تھے۔ڈی پی او محمد سہیل چوہدری نے بتایا کہ بھلوال میں 11 سالہ بچے علی رضا عرف راجو (انڈے بیچنے والا) سے ذیادتی کے بعد قتل کیس کو پولیس نے حل کر کے اصل مزمان کو گرفتار کر لیا۔ڈی پی او محمد سہیل چودھری نے کہا کہ بھلوال میں انڈے بیچنے والے معصوم بچے علی رضاکے سفاکانہ قتل کیس میں پولیس نے پیشہ وارانہ صلاحیتوں کا ثبوت دیتے ہوئے اصل ملزمان کو گرفتار کیا۔انہوں نے کہا کہ ایسے کیسز کو حل کرنا اور مجرموں تک پہنچنا پولیس کے لیے بہت بڑا چیلنج ہوتا ہے جس میں قاتل کوئی سراغ نہ چھوڑے، ترقی یافتہ ملکوں میں بھی با آسانی ایسے قاتلوں کو گرفت میں لانا ایک معمہ بن جاتا ہے جس میں دشمنی، آلہ قتل،فنگر پرنٹ یا ایسا کوئی ثبوت نہ ملے
جس سے ملزم کا سراغ لگایا جا سکیمگر ریجنل پولیس آفیسر ڈاکٹر محمد اختر عباس کی سربراہی میں سرگودھا پولیس کی پروفیشنل ٹیم نے اپنی نوعیت کے اس انوکھے قتل کیس کو نمٹا کر عوام میں پولیس کی ساکھ بحال کی اور بالخصوص ایک غریب والد کو انصاف فراہم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی وقوعہ کے فوراً بعد پولیس اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئیحرکت میں آئی اور چند مشکوک افراد کو گرفتار کیا گیا مگر اس طرح کے کیس میں پولیس کی زمہ داری اور بڑھ جاتی ہے کہ ایک تو معصوم قتل ہوا اور اس پر کسی بے گناہ کو سزا نہ ملے،
انہوں نے بتایا کہ اس واردات میں نہ تو موبائل فون کا استعمال ہوا تھا جس سے لوکیشن ٹریس ہو سکے اور نہ ہی اغوا اور قتل کے موقعہ پے ایسا کوئی گواہ جو مجرموں کو پہچان سکے، نہ ہی فنگر پرنٹ ، آخری حل تھا صرف اور صرف ڈی این اے، مگر یہ ٹیسٹ فرانزک لیب میں ہی ممکن ہو سکتا تھا۔پولیس حکام کی دن رات محنت اور ذاتی نگرانی میں انسپکٹر خدا بخش ایس ایچ او عارف چیمہ، فاروق حسنات اور تفتیشی فخر عباس پر مشتمل ٹیم کی کاوشوں سیبھلوال کیغریب باپ کو انصاف ملا اور قاتلوں کو گرفتار کیا گیا، دونوں ملزمان کا ڈی این اے ٹیسٹ کروایا گیا جسکا رزلٹ پولیس کو موصول ہو گیاہے جس کی بنیاد پر پکڑے جانے والے ملزمان ہی اصل مجرم ثابت ہوئے ہیں ۔