اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک )قصور میں زینب سمیت دیگر بچیوں کوجنسی درندگی کا نشانہ بنانے والا قاتل عمران ایسی بیماری کا شکار ہے جو اسے جنسی درندہ بنا دیتی ہے ، یہ بیماری گوریلوں میں بھی پائی جاتی ہے، تنگ پیشانی کا حامل یہ سیریل کلر چہرے سے بھی گوریلے سے مماثلت رکھتا ہے جبکہ یورپ میں بھی زیادہ تر جنسی تشدد کی وارداتوں میں ملوث لوگ تنگ پیشانی والے ہوتے ہیں،
روزنامہ پاکستان لاہور کی رپورٹ میں ماہر نفسیات و چہرہ شناس کے چونکا دینے والے انکشافات۔ تفصیلات کے مطابق روزنامہ پاکستان لاہور کی رپورٹ میں ایک ماہر نفسیات اور چہرہ شناس نے انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ قاتل عمران علی کا چہرہ دیکھ کر اسکی شخصیت کے بارے میں بتایا جاسکتا ہے کہ وہ کس قماش اور عادات کا مالک تھا؟ ۔اسکے چہرے پر اسکی سب سے بڑی علامت اسکی پیشانی ہے ،چہرہ شناسی کی روشنی میں جب اس کی پیشانی کو دیکھتا ہوں تو چونک جاتاہوں کیونکہ اسکے جرم کی سیاہی اسکی پیشانی سے جھلکتی ہے، اسکی پیشانی تنگ ہے ،واضح رہے کہ اس سے ملتی جلتی پیشانی گوریلے کی ہوتی ہے ۔اس طرز کی پیدائشی پیشانی والوں کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ ایسا انسان اگر پڑھ لکھ بھی جائے لیکن اسکی حیوانیت کسی گوریلے جیسی ہوتی ہے،خون خواری اور جنسی رغبت اس پر غالب آتی ہے تو وہ بچوں سے بدفعلی بھی کرتا ہے ، اسکی یہ ہوس اسے ہر طر ح کا خطرہ مول لینے پر مجبور کرتی ہے،تنگ پیشانی والے لوگ خطرے سے نہیں گھبراتے اور دل کی بات سنتے ہیں،ان پر جنسی وحشت طاری ہوتی ہے تو فرسٹریشن کا شکار ہوجاتے اور اس وقت انہیں کسی قسم کا خوف نہیں رہتا ،ایسے لوگ احمقانہ حد تک دلیر ہوتے ہیں۔عمران علی کی سفاکانہ واردات کا جائزہ لیا جائے تو دیکھا جاسکتا ہے کہ وہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ جن گلیوں سے وہ گزرتا رہا ہے
وہاں کیمرے بھی لگے ہیں،اس نے زینب کو اپنے گھر تک لانے کا بھی خطرہ مول لیا اور واردات کے بعد بھی وہ جنازہ اور احتجاج میں شامل رہا ۔اسکی اسی جبلت نے اس کو یقین دلادیا تھا کہ کوئی اس تک نہیں پہنچ سکتا ۔ایسے لوگ ذہین نہیں ہوتے،اندر سے کھولتے رہنے سے انکی وہ حس مر جاتی یا کمزور ہوچکی ہوتی ہے جو انسان کو عقل و فہم دیتی ہے، یہ نفسیاتی مریض ہوتے ہیں ،
یہ جس پیشے سے بھی وابستہ ہوں انکی مخصوص فریکونسی ایکٹو رہتی ہے۔ زمانہ قدیم میں جب انسان جنگلوں اور غاروں میں رہتا اور تہذیب و تمدن سے دور تھا ،اس زمانے کے زیادہ تر انسانوں کی پیشانی تنگ ہوا کرتی تھی۔اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ موجودہ تہذیب یافتہ دور میں بھی جنگلی اور درندوں کے بعض انسانوں میں جینز موجود ہیں جو اپنی جبلت کے باعث نمودار ہوتے رہتے ہیں،
عمران علی اسکا بدترین نمونہ ہے۔یورپ میں بھی زیادہ تر جنسی تشدد کی وارداتوں میں ملوث لوگ تنگ پیشانی والے ہوتے ہیں جنہیں بعد ازاں سائیکو کہہ دیا جاتا ہے ۔