اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)قصور مقتولہ زینب کے قاتل کو پکڑوانے والے ڈی جی پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی ڈاکٹر طاہر اشرف نے کہا ہے کہ زینب کے قاتل کا سیریل کلر ہونے کا میں نے ہی بتایا تھا، 1150افراد کے نمونوں سے چند دنوں میں نتائج اخذ کیے ۔پچھلے چالیس سال سے اس شعبہ سے وابستہ ہوں، مردان کی اسماء کا نمونہ بھی پہنچ چکا ہے ، قاتل تک پہنچ جائیں گے ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ایک نجی ٹی وی سے خصوصی انٹر ویو میں کیا ۔
انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اس شعبے سے چالیس سال سے وابستہ ہوں۔ 1150افراد کے ڈی این اے ٹیسٹ حاصل کرکے پراسیس کیا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ زیادہ وقت مکمل شفاف نمونوں پر لگتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب بچیوں کے کیس آتے ہیں یا جب کپڑے گندے آتے ہیں اور ان پر لگی ہوئی چیز نظر نہیں آتی تو ڈھونڈنے میں ٹائم لگتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چھوٹے چھوٹے داغ کسی بیڈ شیٹ پر ہوں یا کسی کمبل پر ہوں تو ان کو ڈھونڈنے میں کافی وقت صرف ہوتا ہے ۔ اس طرح کے نمونوں پر بہت وقت لگ جاتا ہے ، مل جانے پر شناخت کرتے ہیں کہ تھوک ہے ، خون ہے یا سیمن ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اس کے بعد ہم اس کا تجزیہ کرنا شروع کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اتنی بڑی تعداد میں نمونے آتے ہیں لیکن ہم سے کوئی غلطی نہیں ہوئی ۔ انہوں نے کہا کہ جب یہ کنفرم ہوگیا ہے کہ عمران کا ڈی این اے پچھلی آٹھ وارداتوں سے میچ ہوگیااور ہم نے ہی بتایا کہ یہ سیریل کلر ہے جو پوراپروفائل قاتل کا تھا وہ ریکارڈ ہمارے پاس موجود ہے ۔ پھر چھوٹا سا نمونہ لیکر اس پر 24گھنٹے کام ہوا ہے۔ تین ٹیمیں بنائی ہوئی تھیں ، رات کو کوئی نہیں جارہا تھا ۔ 24گھنٹے مشینیں چل رہی تھیں وہاں سے نمونے آرہے تھے۔ دن میں 150کے قریب نمونوں کا تجزیہ ہوتا تھا۔ مشین میں بیک وقت 96نمونے چلتے ہیں۔ 20اور 21تاریخ کی درمیانی رات ایک بجے ہمارے پاس نمونہ پہنچا، صبح اسے پراسیس کردیا گیا۔ 22تاریخ کی صبح ڈیڑھ بجے پتہ چل گیا کہ نمونہ کس کا ہے۔
ہم مشتبہ اور زیادتی کا شکار کا نمونہ خود لیتے ہیں۔ ہمارے سائنس دان خود اس کا نمونہ اور اس کے انگلیوں کے شان حاصل کرتے ہیں ۔ شناختی کارڈ ، اس کی تصویر ، اسکے انگوٹھے کے نشان سارا ریکارڈ ہمارے پاس موجود ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری لیب پورے ایشیاء میں اپنی نوعیت کی واحد لیبارٹری ہے ۔ یورپ میں بھی چند ایک ملکوں میں ہوگی۔ یہ لیبارٹری دنیا کی سب سے بڑی لیبارٹری ہے ۔ امریکہ سے کیس آیا ، میں نے پراسیس کرکے رپورٹ بھیجی ہے۔ لندن میں چلنے والے کیسوں میں ہماری فرانزک پر کام ہور ہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ میری وجہ سے کئی گناہ گاروں کو سزاملی ، مردان کی بچی اسماء کا کیس بھی ہے ہم اس کو بھی پراسیس کررہے ہیں۔ نمونہ ہمارے پاس آگیا ہے اور اس پر کام ہو رہا ہے۔