مردان(آن لائن) پولیس نے کمسن عاصمہ کے قتل میں ملوث ملزمان کی گرفتاری کے لیے اقدامات کرتے ہوئے ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے 200 افراد کے نمونے حاصل کرلیے۔17 جنوری کے روز مردان کے ضلعی ناظم نے دعویٰ کیا تھا کہ 2 روز قبل یعنی 15 جنوری کو قتل کرکے کھیتوں میں پھینکی گئی 4 سالہ بچی عاصمہ سے زیادتی کی گئی جو پوسٹ مارٹم رپورٹ سے ثابت ہوئی۔
جب کہ ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) مردان میاں سعید کا مؤقف تھا کہ بچی کی موت گلا گھونٹنے سے ہوئی ہے اور پوسٹ مارٹم رپورٹ میں ریپ کی کوئی نشاندہی نہیں کی گئی۔وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے عاصمہ کی مردان میں واقع رہائش گاہ کا دورہ کیا تھا اور ملزمان کی گرفتاری کی یقین دہانی بھی کرائی گئی۔خیبرپختونخوا پولیس اب تک عاصمہ کے قاتلوں کو گرفتاری نہیں کرسکی ہے اور اس حوالے سے صرف زبانی جمع خرچ کیا جارہا ہے۔پشاور پولیس کے مطابق عاصمہ کے قتل میں ملوث ملزمان کی گرفتاری کیلیے اقدامات کیے جارہے ہیں ۔
ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے 200 افراد کینمونے حاصل کرلیے گئے ہیں جب کہ فارنزک رپورٹ آنے کا انتظار کیا جارہا ہے۔پولیس حکام کا کہنا ہیکہ کیس میں تفتیش کے لیے ماہر نفسیات کی خدمات بھی حاصل کی گئی ہیں اور مقتولہ عاصمہ کے قریبی رشتے داروں سے بھی پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔واضح رہے کہ مردان کے گاوں گوجر گڑھی کے علاقے جندر پار سے اتوار کو لاپتہ ہونے والی 4 سالہ بچی عاصمہ کی لاش رواں ہفتے 15 جنوری کو کھیتوں سے برآمد ہوئی تھی۔