کراچی(آئی این پی) ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی ثناء اللہ عباسی نے کہاہے کہ انکوائری میں ثابت ہوگیا کہ پولیس مقابلہ جعلی تھا جس میں نقیب اللہ کو بے گناہ مارا گیا۔کراچی میں محسود قبائل کے جرگے سے خطاب کرتے ہوئے نقیب اللہ ماورائے عدالت قتل کیس کی تحقیقات کرنے والی کمیٹی کے سربراہ ایڈیشنل آئی جی کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ ( سی ٹی ڈی) ثناء اللہ عباسی نے کہا کہ امن وامان قائم رکھنے کے لیے آپریشن شروع کیا گیا جسے خراب کرنے کے لیے
کچھ گندے عناصر سامنے آئے۔ثناء اللہ عباسی نے کہا کہ تفتیشی ٹیم نے 14 گھنٹوں میں ثابت کردیا کہ مقابلہ جعلی تھا، انکوائری میں ثابت ہوگیا کہ نقیب اللہ کو بے گناہ مارا گیا۔ایڈیشنل آئی جی نے کہا کہ یہ ایک جعلی مقابلہ تھا جس میں بیگناہ آدمی مارا گیا،کسی کو اجازت نہیں دیں گے کہ ماورائے عدالت قتل کرے، نقیب اللہ کے قاتلوں کو منطقی انجام تک پہنچایا جائیگا، دنیا دیکھے گی اور وقت بتائے گا کہ پولیس نے نقیب اللہ قتل کیس میں کیا کیا۔ثناء اللہ عباسی نے مزید کہاکہ ہم کسی کے خلاف نہیں، پر کسی کی سرپرستی نہیں کریں گے، ہم ہر ایک کو جواب دہ ہیں۔واضح رہے کہ نقیب اللہ قتل کیس کی تین رکنی اعلیٰ سطح کی تحقیقاتی کمیٹی میں ڈی آئی جی سلطان خواجہ اور ڈی آئی جی آزاد خان شامل ہیں۔دریں اثناء وزیر داخلہ سندھ سہیل انور سیال نے کہاہے کہ نقیب اللہ کیس میں کوئی کتنا بھی با اثر ہو اس کا دفاع نہیں کیا جائے گا۔کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سہیل انور سیال نے کہا کہ نقیب اللہ کیس کی ایف آئی آر درج ہوگی جس کے بعد باقاعدہ تفتیش کا آغاز ہوگا، تحقیقاتی کمیٹی کے کام سے مطمئن ہوں، کمیٹی کا کام صحیح سمت میں چل رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ راؤ انوار کو کسی پر اعتراض ہے تو وہ آئی جی کے سامنے پیش ہوں، ان کے پاس اگر کوئی ثبوت ہے تو پیش کریں اور خود کو بے گناہ ثابت کریں۔وزیر داخلہ نے کہا کہ کسی سے تعلق کا مقصد ’لائسنس ٹو کِل‘ نہیں، ہم کسی کی پشت پناہی نہیں کررہے اور نہ کریں گے، کسی کو کہیں بھی اجازت نہیں کہ بے گناہ کو مار دیا جائے، کوئی بھی کتنا بااثر ہو، قانون سے بالاتر نہیں، کسی کا بھی دفاع نہیں کیا جائے۔سہیل انور سیال نے مزید کہا کہ مقصود، نقیب اور انتظار کیسں کے حالات مختلف ہیں،
میڈیا تینوں چیزوں کو اکٹھا کررہاہے جب کہ تینوں کیس الگ الگ سمت میں چل رہے ہیں، تینوں مقدمات کی بھرپور تفتیش کی جائے گی۔صوبائی وزیر داخلہ نے کہا کہ راؤ انور کی چھٹی کی کوئی درخواست صوبائی محکمہ داخلہ سے نہیں گئی جب کہ وہ اسلام آباد ائیرپورٹ سے جانے کی کوشش کررہے تھے جو صوبائی حکومت کے انڈر نہیں آتا۔علاوہ ازیں شاہ لطیف ٹاؤن پولیس مقابلے میں 13 جنوری کو نقیب اللہ محسود کے ساتھ مارے گئے دیگر 3 ملزمان کی ہلاکت کی بھی تحقیقات کا آغاز کردیا گیا۔نقیب اللہ محسود قتل کیس کی تحقیقاتی کمیٹی میں شامل ڈی آئی جی ایسٹ سلطان خواجہ نے تینوں ملزمان کیکرمنل ریکارڈ کے لیے چاروں صوبوں، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے آئی جیز کو خط لکھ دیے جبکہ سندھ کے ڈی آئی جیز کو بھی معلومات دینیکا کہا گیا ہے۔دوسری جانب تینوں ملزمان کے شناختی کارڈ نمبر، تصاویر اور دیگر تفصیلات بھی فراہم کی گئی ہیں۔یاد رہے کہ سابق سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) ملیر راؤ انوار نے 13 جنوری کو کراچی کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن میں ایک مبینہ پولیس مقابلے میں 4 مبینہ دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کا تعلق دہشت گرد تنظیموں سے تھا۔ہلاک ہونے والوں میں جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والا 27 سالہ نوجوان نقیب اللہ بھی شامل تھا۔راؤ انوار کا دعویٰ تھا کہ مبینہ طور پر تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور کالعدم لشکر جھنگوی سے تعلق رکھنے والا نقیب اللہ جیل توڑنے، صوبیدار کے قتل اور ایئرپورٹ حملے میں ملوث مولوی اسحاق کا قریبی ساتھی تھا۔ایک اور ہلاک ملزم محمداسحاق بہاولپور کے نواحی علاقے احمدپور شرقیہ کا رہائشی تھا، جبکہ مقابلے میں مارے گئے نذر جان اور نسیم اللہ جنوبی وزیرستان ایجنسی کے رہنے والے تھے۔تاہم نقیب کے اہلخانہ نے راؤ انوار کے پولیس مقابلے کو جعلی قرار دے دیا تھا جس کے بعد نوجوان کی ہلاکت کے خلاف مظاہرے کیے گئے اور چیف جسٹس پاکستان نے بھی اس معاملے کا از خود نوٹس لیا۔بعدازاں سوشل میڈیا اور میڈیا پر معاملہ اٹھنے کے بعد آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے آئی جی سی ٹی ڈی ثنا اللہ عباسی کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیٹی قائم کردی تھی۔تحقیقاتی کمیٹی نے نقیب اللہ کو بے گناہ قرار دیتے ہوئے پولیس پارٹی کے سربراہ ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کو معطل کرکے گرفتار کرنے اور نام ای سی ایل میں ڈالنے کی بھی سفارش کی جس پر انہیں عہدے سے ہٹا کر نام ای سی ایل میں ڈال دیا گیا۔دوسری جانب نقیب اللہ کے قتل میں ملوث پولیس پارٹی کو بھی معطل کیا جاچکا ہے۔