اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)ننھی زینب ایک سفاک اور درندہ صفت شخص کی ہوس اور درندگی کی بھینٹ چڑھ کر اس دنیا سے رخصت ہو چکی مگر جاتے جاتے وہ نہ صرف اپنے اہل محلہ ، شہر ، صوبے ہی نہیں بلکہ پورے ملک کیلئے کئی سوال بھی چھوڑ گئی ہے۔ جن کے جواب انتظامیہ اور حکمران طبقے کے منہ پر طمانچے کی صورت میں اس وقت تک لگتے رہیں گے جبکہ زینب کا
قاتل قانون کی گرفت سے دور رہے گا۔ بتایا جاتا ہے کہ زینب جس وقت اغوا ہوئی وہ قرآن پاک کی تعلیم کیلئے گھر سے نکلی تھی اس کے والدین عمرہ کی ادائیگی کیلئے سعودی عرب میں موجود تھے جو کہ اس وقت اسلام آباد پہنچ چکے ہیں ۔ کیا عجب بات ہے کہ والدین رب کے حضور پیش تھے اور والدین کے بغیر زینب پر جب ظلم ہوا تو پورا شہر اس کا وارث بن گیا، پولیس سے تصادم میں دو افراد جان کی بازی ہار گئے مگر شہر سارا زینب کے انصاف کیلئے سراپا احتجاج ہے۔ زینب کے علاوہ اس کی دو بہنیں اور ایک بھائی ہے ۔ والدین عمرہ کی ادائیگی کیلئے جب سعودی عرب روانہ ہونے لگے تو زینب سمیت دیگر بچوں کو خالہ کے گھر چھوڑ کر گئے تھے۔ غمزدہ والدین جب اسلام آباد ائیرپورٹ پہنچے تو عجیب منظر تھا، میڈیا نمائندے والدین کے سامنے مائیک لئے کھڑے تھے اور کیمرے بے بس اور غمزدہ والدین کی اپنا دکھڑا سناتے فوٹیج سارے پاکستان کو دکھا رہے تھے۔ہر آنکھ اشکبار اور دل غمگین تھا۔ ائیرپورٹ کا منظر شاید اس سے پہلے بھی غمگین ہوا ہو مگر ان مسافروں کی واپسی پر جو رقت آمیز منظر وہاں دیکھا گیا شاید ہی دیکھا گیا ہو۔ سکیورٹی اور دیگر عملے کے اراکین تک کی آنکھیں زینب کے غمگین والدین کو دیکھ کر بھیگ چکی تھیں۔