اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک،آن لائن)پاکستان کی سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے قتل کے 10 سل بعد اہم خطوط سامنے آئے ہیں جس کے مطابق دسمبر 2007ء میں آئی ایس آئی کی جانب سے وزارت داخلہ کو دو واضح خطوط لکھے گئے تھے۔ وزارت داخلہ کو لکھے گئے خطوط میں بے نظیر بھٹو کی زندگی کو لاحق خطرات کا ذکر کیا گیا۔خط میں کہا گیا کہ القاعدہ رہنما اسامہ بن لادن نے بینظیر بھٹو کے قتل کے احکامات جاری کر دئیے ہیں۔ 19 دسمبر
کے خط میں بے نظیر بھٹو، پرویز مشرف اور فضل الرحمان کے قتل کے احکامات بھی جاری ہونے کا ذکر کیا گیا۔جبکہ دوسری طرف پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ وہ بینظیر بھٹو کے قتل کا ذمہ دار ذاتی طور پر سابق فوجی صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو سمجھتے ہیں جنھوں نے حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کی والدہ کو قتل کروایا۔بی بی سی کو خصوصی انٹرویو میں انھوں نے اپنی والدہ کے قتل میں ملوث افراد کے بارے میں پہلی بار تفصیل سے اظہار خیال کیا۔انھوں نے کہا کہ وہ اس نوجوان لڑکے کو بینظیر کا قاتل نہیں سمجھتے جس نے 27 دسمبر سنہ 2007 کی شام راولپنڈی میں ان کی والدہ پر حملہ کیا تھا۔’مشرف نے صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میری والدہ کو قتل کروایا۔ اس دہشت گرد نے شاید گولی چلائی ہو، لیکن مشرف نے میری والدہ کی سکیورٹی کو جان بوجھ کر ہٹایا تاکہ انھیں منظر سے ہٹایا جا سکے۔’بلاول بھٹو کے مطابق پرویز مشرف نے بینظیر بھٹو کو براہِ راست دھمکی دی اور کہا کہ ان کے تحفظ کی ضمانت ان (مشرف) کے ساتھ تعاون پر منحصر ہے۔ بلاول کے مطابق حملے والے روز پرویز مشرف نے بینظیر کی سکیورٹی ہٹا دی۔ ‘حملے کے دن ان کے گرد جو سکیورٹی حصار ہوتا تھا اسے بھی ہٹا دیا گیا۔ جیسا کہ میں نے کہا، میں
اس طرح کے اتفاقات پر یقین نہیں رکھتا۔’ان سے جب پوچھا گیا کہ رائے عامہ کے جائزے بتاتے ہیں کہ بہت سے پاکستانی آپ کے والد کو بینظیر بھٹو کا قاتل سمجھتے ہیں، تو بلاول نے کہا کہ یہ مظلوم کو ظالم قرار دینے کے مترادف ہے۔’میری والدہ کے قتل کے معاملے میں حقائق کو چھپایا جا رہا ہے اور میڈیا کے ذریعے ایک خاص طرح کا تاثر پیدا کیا جا رہا، مشرف کو بچانے کے لیے۔’پاکستان کے نظام میں کس کی مدد سے پرویز مشرف نے ایسا کیا؟ اس
سوال پر بلاول کا کہنا تھا کہ انھیں ٹھیک سے یہ نہیں معلوم کہ اس قتل میں ان کی مدد کس نے کی۔’میں انھیں ذاتی طور پر اس قتل کا ذمہ دار سمجھتا ہوں۔ میرے پاس یہ تفصیل نہیں ہے کہ اس نے کسی کو فون پر اس کی ہدایت دی یا کسی میٹنگ میں کسی کو خفیہ کوڈز کے ذریعے پیغام دیا کہ ان کا بندوبست کر دو اس لیے میں لوگوں یا اداروں پر خواہ مخواہ الزام تراشی نہیں کروں گا۔’پیپلز پارٹی کے سربراہ نے بینظیر بھٹو کے قتل کے مقدمے کے ملوث افراد
کو بری کرنے کے فیصلے پر عدالت کو بھی کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔’عدالت نے اس قتل پر ہونے والی اقوام متحدہ کی تفتیش کو نظر انداز کیا، عدالت نے حکومت کی تفتیش کو نظر انداز کیا، اس نے فون کالز کی ریکارڈنگ کو نظر انداز کیا، ڈی این اے سے ملنے والی شہادتوں کو نظر انداز کیا۔ اس لیے میں کہتا ہوں کہ اس فیصلے نے انصاف کا مذاق بنا کر رکھ دیا۔’بلاول نے کہا کہ ان کا خیال تھا کہ مشرف کو بچانے کے لیے ان لوگوں کو قربانی
کا بکرا بنا کر سزائیں دی جائیں گی جنھوں نے عدالت کے سامنے اعتراف جرم کیا لیکن ایسا بھی نہیں ہوا۔’انھوں نے دہشت گردوں کو کلین چٹ دے دی۔ پھر انھوں نے ان پولیس والوں کو سزا دی جنھوں نے کرائم سین کو دھو دیا تھا لیکن ساتھ ہی ان کی ضمانت منظور کر لی اور اب وہ واپس اپنی ڈیوٹی پر آ چکے ہیں۔’مشرف، جسے غیر حاضری میں سزا دی جانی چاہیے تھی کیونکہ ان کے وکیل ان کی نمائندگی اس مقدمے میں کر رہے تھے، انھیں سزا دینے کے بجائے عدالت نے مفرور قرار دیا اور کہا کہ ان پر مقدمہ اس وقت چلے گا جب وہ (پرویز مشرف) ملک میں آنا مناسب سمجھیں گے۔ یہ انصاف کی توہین اور اس کا مذاق بنانے کے مترادف اور شرمناک ہے۔