اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)جنرل راحیل شریف کے دور میں تاثر یہ تھا کہ فوج سویلین حکومت پر دبائو ڈالتی ہے اور سیاست میں مداخلت کرتی ہےاس تاثر کو جنرل قمر جاوید باجوہ نے بڑی حد تک زائل کیا ہے، ان کا دورہ افغانستان اور ایران اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ سویلین حکومت کے ساتھ مل کر ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کو خوشگوار بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، حامد میر کی
نجی ٹی وی آج نیوز کے پروگرام میں گفتگو۔ تفصیلات کے مطابق نجی ٹی وی آج نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی حامد میر نے کہا ہے کہ موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا جو کردار ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ انہوں نے سویلین حکومت کو بائی پاس کر کے کوئی اپنی پالیسی نہیں چلائی۔ وہ جو کچھ بھی کر رہے ہیں ، ڈیفنس کمیٹی میں ہونے والے فیصلوں کے تحت کر رہے ہیں۔نیشنل سکیورٹی کمیٹی میں وزیر اعظم بھی شامل ہیں اور اس کمیٹی کے اجلاس میں جو بھی فیصلہ ہوتا ہے اس پر عملدرآمد کیا جاتا ہے ۔میری کوئی ذاتی دشمنی نہیں جنرل راحیل شریف کےساتھ مگر ان کا ذکر آجاتا ہے، جنرل راحیل شریف کے مقابلے میں جنرل قمر جاوید باجوہ سویلین حکومت اور اس کے فیصلے کو زیادہ اچھے طریقے سے لے کر چل رہے ہیں۔ جنرل راحیل شریف کے دور میں یہ تاثر تھا کہ فوج سویلین حکومت پر دبائو ڈالتی ہے اور سیاست میں مداخلت کرتی ہے اس تاثر کو جنرل قمر جاوید باجوہ نے بڑی حد تک زائل کیا ہے۔ حامد میر کا کہنا تھا کہ جنرل راحیل شریف کے دورمیں ایران کے صدر حسن روحانی کے دورہ پاکستان کے موقع پر فوج کی جانب سے ایک ٹویٹ سامنے آیا جس سے ایران اور پاکستان کے تعلقات میں تنائو آگیا تھا جبکہ اب جنرل قمر جاوید باجوہ کے دورہ ایران کے دوران دیکھا جا سکتا ہے کہ انہوں نے غیر روایتی طریقہ اپناتے ہوئے ایرانی
قیادت سے طویل ملاقاتیں کیں اور ان سے کئی امور پر کھل کر بات کی ، وہ وہاں کئی دن رہے جس سے پاکستان اور ایران کے تعلقات میں بہتری آئی ہے۔ حامد میر کا کہنا تھا کہ آرمی چیف کے دورہ افغانستان کے دوران سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ بھی ان کے ساتھ تھی ۔پاکستان کا بنیادی مقصد ایران اور افغانستان میں بھارت کا اثرو رسوخ کم کرنا ہےجس کیلئے آرمی چیف کی کوششیں
قابل ستائش ہیں، پاکستان کے ایران اور افغانستان لے ساتھ جو تعلقات ہیں اور اس میں جنرل باجوہ کی قیادت میں بطور ادارہ فوج اس خطے میں پاکستان کے ہمسایہ ممالک سے تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔