اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کا کہنا ہے کہ ملک کو سنگین بیرونی چیلنجز کا سامنا ہے جن سے نمٹنے کے لیے باہمی اتحاد ضروری ہے۔ ملک میں مارشل لاء کا کوئی امکان نہیں مارشل لاء لگانا ملک توڑنے کے مترادف ہوگا ا اور میں اس امکان کو یکسر مسترد کرتا ہوں۔نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے احسن اقبال نے کہا کہ اِس وقت پاکستان میں مارشل لاء لگانا ملک توڑنے کے مترادف ہوگا
اور پاکستان کا کوئی بھی محب وطن پاکستان توڑنے کے فارمولے پر عمل نہیں کرسکتا۔احسن اقبال نے کہا کہ فوجی قیادت واضح طو رپر یہ کہہ چکی ہے کہ ہم آئین و جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں۔ایک سوال کے جواب میں وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ امریکا میں موجود کچھ لابیز مارشل لاء کی خواہش مند ہوسکتی ہیں جو پاکستان کو ناکام ریاست قرار دلواکر پاکستان کو ایٹمی صلاحیت سے محروم کرنا چاہتی ہیں۔احسن اقبال نے کہا کہ ’اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ جب بھی سینیٹ کے انتخابات قریب آتے ہیں تو اس طرح کی فضا بنادی جاتی ہے کہ پتہ نہیں کیا ہوجائے گا، پی ٹی آئی کی بھی کوشش ہے کہ مارچ کے اس الیکشن کو ملتوی کرایا جائے کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ اس سے انہیں عام انتخابات میں مشکلات درپیش ہوسکتی ہیں۔‘انہوں نے کہا کہ ’چیئرمین پی ٹی آئی کو چاہیے کہ وہ ملک میں افرا تفری پیدا نہ کریں اور انتخابات کی تیاری کریں، اس وقت پاکستان کو سنگین بیرونی چیلنجز کا سامنا ہے اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم ملک کے مفاد کے لیے آپس میں اتحاد پیدا کریں، ایک دوسرے کی پشت پر کھڑے ہوں اور ملکی مفاد کو ترجیح دیں۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’یہ اب سب کو معلوم ہے کہ تحریک انصاف کے 2014 کے دھرنے کو اسٹیبلشمنٹ کے ایک حصے کی حمایت حاصل تھی، لیکن یہ اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کا بڑا پن تھا کہ انہوں نے اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی
حالانکہ حکومت کے خلاف سازش تیار کرنے والوں کے خلاف موثر کارروائی کی جاسکتی تھی، لیکن ہم ملک میں اندرونی سلامتی کو قائم رکھنا چاہتے ہیں۔‘عمران خان کو گرفتار نہ کیے جانے کے حوالے سے وزیر داخلہ نے کہا کہ ’ہم عمران خان کو گرفتار کرکے انہیں مظلوم بننے کا موقع نہیں دینا چاہتے، تاہم اگر عدالت چیئرمین پی ٹی آئی کو گرفتار کرنے کا براہ راست حکم دے تو تعمیل کی جائے گی۔‘صحافی احمد نورانی پر حملے سے متعلق احسن اقبال کا کہنا تھا کہ ’احمد نورانی سمیت تمام صحافیوں پر حملے کی تحقیقات کر رہے ہیں اور جیسے ہی یہ تحقیقات مکمل ہوں گی صحافیوں کے حوالے سے اعلیٰ سطح پر پالیسی مرتب کی جائے گی۔