اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) امریکی انتظامیہ پر واضح کیا ہے کہ ہم افغانستان میں امن چاہتے ہیں، خطے کے دیگر ممالک بھی اس معاملے میں آگئے ہیں اور اب چائنہ اور روس کو ساتھ ملا کر افغانستان کے مسئلے کا حل نکالنا پڑے گا، وزیر دفاع خرم دستگیر نے کہا ہے کہ شہباز شریف کو اگلا وزیراعظم بنانے کا کوئی فیصلہ نہیں ہوایہ پارٹی کا اندرونی معاملہ ہے، انہیں پارٹی کو لیڈ کرنا چاہیے، اس لئے نہیں کہ وہ نواز شریف کے بھائی ہیں بلکہ وہ تجربہ کار ہیں،
،پیپلز پارٹی کے ساتھ پارلیمنٹ میں کافی تعاون کرتے ہیں،انکے پاس اپوزیشن کا مینڈیٹ ہے اور ہمارے پاس حکومت کا، پیپلز پارٹی اگر اپنے آپ کو پی ایم ایل این سے ممتاز نہیں کرے گی تب تک وہ شاید اپنا ووٹ بینک واپس لینے میں کامیاب نہ ہو سکے ،یہ ان کی ایک سیاسی تکنیک ہے،نواز شریف کی سیاسی بقاء مسلم لیگ (ن) کے2018کے الیکشن جیت کر آنے میں ہے،عوام کے فریش مینڈیٹ سے بھی نئے راستے کھلیں گے، جمہوریت کا محاصرہ ابھی ختم نہیں ہوا اور یہ محاصرہ جاری رہے گا آپس کے اختلاف کے باوجود پیپلز پارٹی اور ہماری خواہش ہے کہ پر امن طریقے سے الیکشن ہوں اور اختیارا؛ت منتقل ہوں، افغانستان کی جنگ ہم پاکستان کی سرزمین پر نہیں لڑیں گے، دہشت گردوں کی جو باقیات موجود ہیں ان کو ختم کر رہے ہیں، پاکستان کسی بین الاقوامی امداد کے بغیر افغان بارڈر پر باڑ لگا رہا ہے، ہم نے امریکی انتظامیہ پر واضح کیا ہے کہ ہم افغانستان میں امن چاہتے ہیں، خطے کے دیگر ممالک بھی اس معاملے میں آگئے ہیں اور اب چائنہ اور روس کو ساتھ ملا کر افغانستان کے مسئلے کا حل نکالنا پڑے گا۔ جمعہ کو نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیر دفاع خرم دستگیر نے کہا کہ پارٹی میں اس بات پر اتفاق ہے کہ شہباز شریف کو پارٹی کو لیڈ کرنا چاہیے، اس لئے نہیں کہ وہ نواز شریف کے بھائی ہیں بلکہ وہ تجربہ کار ہیں، یہ پارٹی کا اندرونی معاملہ ہے،
شہباز شریف کا پنجاب کا ماڈل تینوں صوبوں کیلئے مثال ہو گا، شہباز شریف کو اگلا وزیراعظم بنانے کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا،ہم پیپلز پارٹی کے ساتھ پارلیمنٹ میں کافی تعاون کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے پاس اپوزیشن کا مینڈیٹ ہے اور ہمارے پاس حکومت کا مینڈیٹ ہے، الیکشن سے قبل ہر پارٹی اپنے آپ کو ایک دوسرے سے علیحدہ ظاہر کر رہی ہے، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی آپس میں بہت اچھی ورکنگ ریلیشن شپ ہے، پیپلز پارٹی اگر اپنے آپ کو پی ایم ایل این سے ممتاز نہیں کرے گی
تب تک وہ شاید اپنا ووٹ بینک واپس لینے میں کامیاب نہ ہو سکے ،یہ ان کی ایک سیاسی تکنیک ہے، میاں نواز شریف ٹکراؤ نہیں چاہتے، گر وہ ایسا چاہتے تو بطور وزیراعظم ایسا کرتے۔ خرم دستگیر نے کہا کہ ہمیں ایک متحدہ مسلم لیگ (ن)2018کے الیکشن میں لے کرجانی ہے، نواز شریف کی سیاسی بقاء مسلم لیگ (ن) کے الیکشن جیت کر آنے میں ہے،پارٹی کامیاب ہو گی تو اس سے راستے کھلیں گے، عوام کے فریش مینڈیٹ سے بھی نئے راستے کھلیں گے، جمہوریت کا محاصرہ ابھی ختم نہیں ہوا اور یہ محاصرہ جاری رہے گا
آپس کے اختلاف کے باوجود پیپلز پارٹی اور ہماری خواہش ہے کہ پر امن طریقے سے الیکشن ہوں اور اختیارات منتقل ہوں، ہم مسائل اور اختلافات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، سینیٹ الیکشن کے بعد آئینی ترمیم کا آپسن موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کی جنگ ہم پاکستان کی سرزمین پر نہیں لڑیں گے، ہم نے آپریشن ضرب عضب اور آپریشن رد الفساد کے ذریعے دہشت گردوں کے خفیہ ٹھکانے تباہ کر دیئے ہیں اور ان کی جو باقیات موجود ہیں ان کو ختم کر رہے ہیں، یہ ضرب عضب اور رد الفساد کے بعد کا پاکستان ہے،پاکستان کسی بین الاقوامی امداد کے بغیر افغان بارڈر پر باڑ لگا رہا ہے، ہم نے امریکی انتظامیہ پر واضح کیا ہے کہ ہم افغانستان میں امن چاہتے ہیں، ہم نے مغربی دنیا سے سوال کیا ہے کہ کیا آپ افغانستان میں امن چاہتے ہیں، اب خطے کے دیگر ممالک بھی اس معاملے میں آگئے ہیں اور اب چائنہ اور روس کو ساتھ ملا کر افغانستان کے مسئلے کا حل نکالنا پڑے گا۔