لاہور( ایچ ای عاشرؔ ) تحریک انصاف کو کئی ضمنی الیکشن میں عوام نے مسترد کر دیا مگر پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہونے کے فلگ شگاف نعرے فضا میں بلند ہورہے تھے،تین سال بعد حاضری تھی مگر عوام کی یاد ستانے کی تذکرہ کیا جا رہاتھا،دھرنے جلسوں سے ملک و قوم کا وقت ضائع کرنے والے کی باتیں اقبال و جناح کے خواب و اقوال سے کھنک رہیں تھیں۔نسل نو میں عدم برداشت کو فروغ دینے اوربدکلامی و بدتہذیبی کا عنصر پیدا کرنیوالے کہ زیر لب آج پھر ایک قوم بنانے کے دعوے تھے۔
اپنے زیرانتظام صوبے میں احتساب کو تالے لگانے والے ملک میں احتساب کا اعلان کر رہا تھا۔مثال خان قتل میں ملوث مرکزی کردار کو زیر حراست فرار کرنے والی پولیس کو مثالی قرار دیا جا رہا تھا۔ایک کہانی کے بعد دوسری کہانی سماعتوں کو بیزار کر رہی تھی۔ میانوالی میں عمران خان جلسے سے ایسے مخاطب تھے کہ جیسے سیاست نہ ہو گئی کوئی عداوت ہو گئی،اپنے کارنامے یا بلند عزائم کی تشہیر کے بجائے ملک کے عظیم تر مفاد میں مخالفین پر کیچڑ اچھالنے کو نیکی سمجھا رہا تھا۔دلچسپ سی کیفیت تھی سننے کو ضمیر گوارہ بھی نہ تھا مگریہ تعین بھی تو کرنا تھا کہ حسب عادت حسب سابق موصوف نے کتنا چھپایا کتنا دبایا کتنا گھمایا؟ جس دلیری اور ہمت سے خان صاحب نے عوام کو اپنے تراشے ہوئے حقائق سے آگاہ کیا یقیناًیہ داد وتحسین کے مستحق ہیں۔ اور داد کیوں نہ دی جائے جس انداز و بیان میں اُنہوں نے جھوٹ پر جھوٹ بولا،یہ اِنہیں کا خاصہ ہے۔پولیس ریفارمز کی دعوے کرنے والے کیا بتا سکتے ہیں کہ مشال خان کا قاتل کیوں اور کس نے فرار کرایا؟ کیا یہ بتا سکتے ہیں کہ کس کے خوف سے مشال خان کے اہل خانہ ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے؟ نہیں۔اِس کا جواب خان صاحب کے پاس نہیں کیوں کہ آزاد پولیس کے دعوے بس دعوے ہی ہیں۔جبکہ پنجاب میں صرف وردی بدلنے کا تاثر سراسر غلط ہے،اصل ریفارمزتو عملی طور پر پنجاب پولیس میں نظر آ رہا ہے۔
تھانہ کلچر کی بہتری کیلئے پنجاب پولیس میں ڈیجیٹل سسٹم کا آغاز کیا گیا ہے۔ کمپلینٹ مینجمنٹ سسٹم سے ذریعے سکایات کی کمپیوٹرائزیشن جاری ہے،سیف سیٹی پروجیکٹ کے تحت پنجاب کے پانچ اہم شہروں کی بذریعہ سی سی ٹی وی کیمرہ سے نگرانی ایشیا کے بڑے منصوبوں میں شامل ہے۔ آئی جی پی مانیٹرنگ سیل،آپریشنل/میڈیا سنٹر، کریمینل ریکارڈ آفس، پولیس سٹیشن ریکارڈ مینجمنٹ سسٹم کا قیام عمل میں لایا گیا ہے،جدید ترین آئی ٹی سہولیات سے آراستہ فرنٹ ڈسک متعارف کروائے گئے ہیں۔انسداد دہشت گردی ڈیپارٹمنٹ کا قیام عمل میں آیا ہے،پنجاب ایلیٹ فورس کی ری ویمپنگ مکمل کر لی گئی ہے،
سپیشل پروٹیکشن یونٹ قائم کیا گیا ہے، ایلیٹ پولیس ٹریننگ سکول میں توسیع کی گئی ہے،اسلحہ لائسنز کی کمپیوٹرائزیشن کی جار ہی ہے۔ڈلفن فورس کے قیام سے سٹریٹ کرائمز میں % 50نمایاں کمی آئی ہے۔2300سے زیادہ دہشت گردوں کو گرفتا کیا گیا ہے21196مشتبہ افراد کو قانون کی گرفت میں لایا گیا ہے، گزشتہ سال امن عامہ کی صورتحال کو یقینی بنانے کیلئے 13,798مدارس، 63ہزار مساجد، 2937اقلیتی عبادت گاہوں اور 4200این جی اوز کو جیو ٹیگ اور ایک لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کی بائیو میٹرک نظام کے تحت شناخت کی گئی ہے۔
یہ ہیں وہ اصل ریفارمز اور اُن کے ثمرات جو صوبہ پنجاب میں پہلے ہی فعال اور کامیاب ہیں مگر ڈھنڈورا کے پی کے میں پیٹا جا رہا ہے۔ امن و امان کی صورتحال کی تسلی بخش ہونے کے باعث ہی انٹرنیشنل کرکٹ دوبارہ بحال ہو رہی ہے۔خان صاحب جنہوں نے ایڑھی چوٹی کا زور لگا دیا کہ لاہور پی ایس ایل کی میزبانی سے محروم رہے مگر کامیاب نہ ہوسکے، اُن کی ناکامی آج پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کی بحالی کی نویدیں دے رہی ہے۔کیا خان صاحب بتاسکتے ہیں کہ پنجاب میں کرکٹ کے فروغ کا بڑھتا ہوا رحجان خیبرپختونخواہ میں نظر کیوں نہیں آرہا تو اُس جواب یہ کہ وہاں کی امن و امان کی صورتحال پر سوالیہ نشان ایک المیہ بن کر لٹک رہا ہے۔
سرمایہ کاروں کا پنجاب میں مختلف سیکٹر میں دلچسپی کی وجہ بھی یہاں کا پُرامن اور خوشگوار ماحول ہے۔کیا خان صاحب کو پنجاب حکومت کی اچھی طرز حکمرانی کے ذریعے منصوبوں میں اربوں روپے کی بچت جیسی قابل تحسین مثالیں نظر نہیں آرہیں، اگر شہباز شریف کے ویژن کے مطابق حکومت پنجاب کی دیگر شعبہ جات میں کارکردگی کا سرسری جائزہ لیا جائے تو ماڈل مویشی منڈیاں قائم کر کے دہائیوں پرانے استحصالی نظام کو دفن کیاگیا ہے۔میٹرو بس سروس کے ذریعے عام آدمی کو باوقار،باکفایت اورجدید سفری سہولتیں فراہم کی ہیں،
یہی وجہ ہے چارسال کی مسلسل تنقید کے بعد خان صاحب کواس پروجیکٹ کے عوامی حلقے میں پسندیدگی کا احساس ہونے لگا توبغیر کسی پشیمانی کے پشاور میں ماز ٹرانزٹ پروجیکٹ کے نام سے میٹروبس منصوبے شروع کر دیا۔آج اورنج لائن میٹروٹرین کو ناکام کرنے کی کوشش کی جا رہی مگرقوی اُمید ہے چند سالوں بعد خان صاحب اِسی کے گن گاتے نظر آ رہے ہوں گے۔کیوں یوٹرن اِنہیں کا وطیرہ ہے۔توانائی منصوبوں میں صوبہ پنجاب میں انقلابی اقدامات کئے گئے ہیں پنجاب پاور پلانٹ جھنگ 60ماہ کی، بھکی پاور پلانٹ کو 49ماہ کی ریکارڈ مدت میں مکمل میں کئے گئے ہیں،
ساہیوال کول پاورپلانٹ مقررہ مدت سے چھ ماہ قبل مکمل ہوا، اس کے علاوہ چشمہ میں پنجاب کا چوتھا نیوکلیئز پاور پلانٹ کا بھی آغاز کر دیا گیا ہے۔قائد اعظم سولر پارک بہارلپور، ونڈ پاور پلانٹ روجھان، تونسہ ہائیڈروپاور پروجیکٹ سمیت کئی دیگر شامل بھی ہیں۔ وہ دن گئے جب 18سے20گھنٹے لوڈشیڈنگ ہوا کرتی تھی۔ صنعتوں کو بجلی کی سپلائی بلاتعطل جاری ہے۔کیا خان صاحب بتا سکتے ہیں کہ اُنہوں نے کے پی کے میں برسرااقتدار آنے پر دعوی کی تھا کہ وہ پانچ سو ڈیم بنا کر کے پی کے کی ضرورت بھی پورا کریں گے اوردوسرے صوبوں کو بھی بجلی فروخت کریں گے، کا کیا بنا؟
صوبہ پنجاب کے لینڈریکارڈ انفارمیشن مینجمنٹ سسٹم کے ذریعے پٹوار کلچر کا خاتمہ کر دیا گیا۔ اِ س احسن اقدام کو سراہنے کیلئے ورلڈ بینک نے ایک دستاویزی فلم بھی پیش کی جو وزیراعلیٰ شہباز شریف کی انتھک محنتوں کا منہ بولتا ثبو ت ہے۔ شاید صحت کی بات کرتے چند تلخ حقائق خان صاحب کی آنکھوں سے اوجھل رہے چار سال سے زائد کا عرصہ گزار دینے کے بعد بھی تحریک انصاف کی حکومت خیبرپختونخواہ صوبے بھر میں ایک بھی چلڈرن ہسپتال،کارڈیک اور برن سنٹر بنانے میں ناکام رہی ہے اوراموات کی شرح نے تو واضح کر دیا کہ زچہ بچہ کی صحت کے حوالے سے کوئی میگا پروجیکٹ بھی ان کی ترجیحات میں شامل نہیں۔
ہسپتالوں کے دورہ کیا جائے تو وہاں کی گندگی،بے ہنگم نظام،مریضوں کا دربدر نظر آنا معمول کی بات بن گیا ہے۔چند ایک ہسپتال کی تعمیر و توسیع کی اِن کے منظورنظر ٹی وی پر کوریج دے کرمیدانِ صحت میں انقلاب کا ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے۔مگر حقائق اِس سے یکسر برعکس ہیں۔مریضوں کو آج بھی علاج معالجے کیلئے پنجاب کے ہسپتالوں میں ریفر کیاجاتا ہے۔کب تک شوکت خانم کے نام پر عوام کی آنکھوں میں دھول اْڑائی جاتی رہے گی، خیبر پختونخواہ کے سرکاری ہسپتالوں کی صورتحال تو یہ کہ میں تین ماہ میں 3500 بچے اور 150 مائیں جان کی بازی ہارگئے جبکہ صرف بنوں میں سب سے زیادہ 723بچوں کی اموات رپورٹ ہوئیں ہیں یہ اموات دوران زچگی اور پیدائش کے چند ماہ بعد ہوئیں ہیں۔
طبی ماہرین کے مطابق یہ ممکنہ طور پر طبی سہولیات کے فقدان اور غیرذمہ دارانہ نگہداشت کا باعث واقع ہوئیں ہیں جبکہ دوسری جانب پنجاب بھر میں ہسپتالوں کی تعمیروتوسیع کا منصوبوں پر ہنگامی بنیادوں پر کام جاری ہے۔ہیلتھ ریفارمز متعارف کرائے گیا جس کی تقلید میں خیبرپختونخواہ بھی کوشاں ہے۔ تعلیمی شعبے کی بات کی جائے تو معروف برٹش ماہر تعلیم مائیکل باربر نے تسلیم کیا ہے کہ صوبہ پنجاب میں پرائمری سکولوں میں انرولمنٹ کیساتھ ساتھ معیار تعلیم میں اضافہ ہوا ہے۔ورلڈ بینک کی اپنی ڈویلپمنٹ رپورٹ میں بھی پنجاب 98% کے ساتھ سرفہرست ہے۔ہونہار طلبا و طلبات میں لیپ ٹاپ اسکیم،طلبا کیلئے آن لائن روزگار اسکیم،زیور تعلیم پروگرام،اُجالا پروگرام سمیت کئی پروجیکٹس کا سہرا وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے سر ہے۔
شجرکاری کی مہم کے حوالے سے سب سے اہم پیش رفت جنوبی پنجاب میں ہوئی ہے جہاں 99077ایکٹر خالی رقبے پر جنگلات اور چراگاہیں اُگانے کا آغاز کیا گیا ہے۔جبکہ صوبہ بھر میں شجرکاری مہم جاری ہے صرف مون سون مہم میں بارہ ملین درخت لگائے گئے۔2017۔18میں کسان کی خوشحالی کے لئے140ارب 50کروڑ مختص کئے گئے،کسان پیکچ متعارف کروایا گیا،زرعی ٹیوب ویلز کیلئے بجلی کی قیمت میں کمی،زرعی ادویات اور مشینری پر ٹیکسوں میں چھوٹ، کسانوں کے حقوق کا تحفظ، زرعی پالیسی کی تشکیل کے لئے پنجاب ایگریکلچرل کمیشن کا قیام، گندم او رکپاس کے مفت بیج، یوریا ڈی اے پی اور پوٹاش کھادیں،
زرعی آلات پر سبسڈی، چھوٹے کاشتکاروں کو بلاسود قرضوں کی فراہمی، ٹنل فارمنگ اور ڈرپ سسٹم کے فروغ کیلئے سبسڈی سمیت کئی انقلابی اقدامات کئے گئے ہیں جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔عمران خان من گھڑت اعدادوشمار میں جیتے ہوئے آئندہ عام انتخابات کی جانب بڑھ رہے ہیں، اُنہیں نہ تو اپنی ناقص کارکردگی پر ندامت ہے نہ الیکشن سے قبل کچھ کردیکھانے کا عزم۔وہ شاید تنقید کی بنیادوں کے جیتنے کے خواب دیکھ رہے ہیں جو کہ ناممکن ہے، عوام باشعور ہے وہ خوب جانتی ہے کہ نہ تو اونچی آواز ضروری ہے کہ سچی ہو نہ یہ ضروری ہے کہ مدھم آواز جھوٹی ہے۔