اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) معروف خاتون صحافی و کالم نگار طیبہ ضیا چیمہ اپنے کالم میں لکھتی ہیں کہ ہر بیٹی کی نظر میں اس کا باپ صادق و امین ہوتا ہے۔ بے نظیر بھٹو کہتی تھیں اس کے بے قصور معصوم باپ کو پھانسی دے دی گئی۔ یہ وہ دو سیاسی بیٹیاں ہیں جن کے باپ بے انصاف عدالتی فیصلوں کی بھینٹ چڑھا دئیے گئے؟اس عدلیہ سے ایک عام انسان کو انصاف کی
کیا توقع ؟بے نظیر اور مریم کا دکھ اب کچھ کچھ سانجھا ہو گیا ہے لیکن نواز شریف نے دیر کر دی۔بے نظیر بھٹو کے دکھوں کو نواز شریف پارٹی نے بری طرح اچھالا اسے تڑپایا ستایا۔ وہ بھی کسی کی بیٹی تھی۔ہمیں آج بھی یاد ہے مشرف کا دور تھا۔ بے نظیر بھٹو ریاست اوہائیو میں ایک یونیورسٹی میں لیکچر کے لئے تشریف لائیں۔گوروں سے ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔دہشت گردی کے خلاف لیکچر کے دوران نواز شریف کے خلاف بھی بولیں۔ نواز حکومت کے زرداری اور بھٹو فیملی کے ساتھ ظلم و ستم کا ذکر کیا۔ لیکچر کے بعد سٹیج سے اتریں تو امریکی میڈیا نے گھیر لیا۔ ہمیں مشرقی لباس میں دیکھ کر مسکرا دیں اور ہجوم ہٹاتے ہوئے قریب بلایا اور کہا آپ پاکستانی لگتی ہیں۔ ہم نے نوائے وقت کا حوالہ دیا تو بولیں نواز شریف کے خلاف میری باتیں ناگوار محسوس ہوئی ہوں گی ؟ ہم نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ہمارا محمد علی جناح کی مسلم لیگ سے تعلق ہے جو پورے پاکستان کا ہے آپ کا بھی۔ محترمہ نے بڑی گرمجوشی سے مصافحہ کرتے ہوئے کہا ” ہم ڈکٹیٹروں کے ظلم کے عادی ہو گئے ہیں لیکن جمہوریت کی آڑ میں نواز حکومت نے جو ظلم میرے شوہر اورلوگوں پر کئے وہ کہیں سے جمہوریت نواز کہلانے کے حقدار نہیں “۔۔۔۔ماضی کے سیاسی دریچوں میں جھانکیں تو دل بے ساختہ کہہ اٹھتا ہے مکافات عمل ابھی شروع ہوا ہے۔ عشق کے امتحان ابھی بہت باقی ہیں۔