لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک) وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے کہا ہے کہ مجھ پر لگائے گئے الزامات بے بنیاد اور جھوٹے ہیں جن کی تحقیقات ہونا بے حد ضروری ہے کیوں کہ بہ حیثیت خادمِ اعلیٰ پنجاب کے عوام اور کابینہ کو جوابدہ ہوں.ان خیالات کا اظہار انہوں نے آج ایک پریس کانفرنس میں کیا جو ملتان میٹرو منصوبے پر کک بیکس لینے اور کرپشن کے الزامات پر وضاحت دینے کے لیے بلائی گئی تھی.وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف نے
وضاحتی پریس کانفرنس میں اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کی تردید کرتے ہوئے الزام لگانے والوں کو لیگل نوٹس بھیجوانے کا بھی اعلان کیا.وزیراعلیٰ پنجاب کا کہنا تھا کہ ملتان میٹروبس منصوبے میں9 کنٹریکٹر تھے اورالزام لگایا گیا کہ فیز تھری میں کیپٹک انجینئرنگ کمپنی کوٹھیکہ دیا گیا جب کہ 9 کنٹریکٹرز میں کیپٹک نام کی کوئی کمپنی موجود نہیں تھی پھر کیسے ٹھیکہ اس کمپنی کو دیا جا سکتا ہے؟انہوں نے مزید کہا کہ کرپشن کے حوالے سے جو 16 اگست کا جو خط دکھایا جا رہا ہے وہ کیپٹل الفاظ میں تحریرکیا گیا ہے حالانکہ میں نے آج تک کیپٹل الفاظ والے کسی خط پردستخط نہیں کیے اسی طرح خط سے منسلک ستائشی سرٹیفکیٹ پر بھی کسی کا نام تک نہیں تو یہ جھوٹا ہے.وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا کہ خدانخواستہ میرے مر جانے کے بعد بھی اگر ایک پیسے کی کرپشن سامنے آجائے تو قبر سے میری لاش نکال کرلٹکا دیں۔عوام کے منتخب خادم اعلی پر بے بنیاد الزام لگانا اورخود فرشتے بن کر دوسروں پر طعنے زنی کرنا گندا کھیل ہے۔وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے کہا کہ ایس ای سی پی سے 16 اگست کو خط ملا جس پر وزیراعلیٰ پنجاب ہاؤس رجوع کیا تو ایس ای سی پی کو آگاہ کیا گیا کہ کوئی خط وزیراعلیٰ پنجاب کی جانب سے نہیں بھیجا گیا ہے.شہبازشریف نے کہا کہ معاملہ بہت سنجیدہ ہے اور میں نے ایک مزدور اور خادم کی طرح اس قوم کی خدمت کی ہے اور
خود کو عوام اور پنجاب اسمبلی کے سامنے جوابدہ سمجھتا ہوں.انہوں نے کہا کہ پاناما میں دیگرسیاست دانوں اور ان کے بچوں کےنام بھی ہیں لیکن ایک اکیلے نواز شریف جن کا نام بھی نہیں تھا پاناما پیپرز میں انہیں گھر بھیج دیا گیا اور نوازشریف عدالتی حکم کا احترام کرتے ہوئے چپ چاپ گھر آگئے اور بعد ازاں عوامی عدالت سے رجوع کیا.شہبازشریف نے کہا کہ لیکن کیا احتساب یہاں ختم ہوگیا تو کیا پاناما پر احتساب ختم ہوگیا ہے تو
یہ احتساب کی موت واقع ہوگئی ہے اس طرح کے الزام لگانا ہے تو میدان میں سچ سامنے لائیں، 1971 سے 2009 تک 256 ارب قرضے معاف کرائے گئے ہیں اور یہ قرضے کسی غریب نے نہیں اشرافیہ نے لیے تھے اور بعد میں معاف کرائے.انہوں نے کہا کہ رینٹل پاور پلانٹ کرپشن کیس کا بنا؟ سپریم کورٹ کے مطابق نندی پور میں بابر اعوان ذمہ دار ہے جب کہ پنجاب بینک میں جو ڈاکا زنی ہوئی اس کا کیا ہوا؟ کیا احتساب صرف ایک کا ہونا ہے ؟